آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کے مختلف مراحل آہستہ آہستہ مکمل ہورہے ہیں، اسی سلسلے میں گزشتہ سال کے خاتمے کے ساتھ ہی کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ دوسری جانب مخصوص نشستوں کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی تاریخ تبدیل کر دی گئی ہے۔ کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل 3 جنوری تک کی جا سکے گی۔ اپیلوں پر انتخابی ٹریبونل 10 جنوری تک فیصلہ کریں گے۔ امیدوار اپنے کاغذات 12 جنوری تک واپس لے سکیں گے۔ امیدواروں کو انتخابی نشان 13 جنوری کو دیے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن 8 فروری کو انتخابات کے انعقاد سے متعلق تیاریاں مکمل کررہا ہے اور اس حوالے سے انتخابی عملے کی تربیت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کا راستہ ہموار ہورہا ہے۔
انتخابی عمل پر جس جماعت کو سب سے زیادہ اعتراضات ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے جس کے بانی عمران خان سمیت متعدد امیدواروں کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں۔ عمران خان نے لاہور اور میانوالی سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے اور ان دونوں شہروں سے ان کے کاغذات مسترد ہوگئے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما میاں نصیر نے لاہور کے حلقہ این اے 122 سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے تجویزکنندہ اور تائیدکنندہ این اے 122 سے نہیں ہیں اور وہ توشہ خانہ کیس میں نا اہل بھی ہیں اس لیے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ریٹرننگ آفیسر (آر او) نے دو روز پہلے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض پر فیصلہ سنایا۔ آر او کے مطابق، عمران خان سزا یافتہ ہیں۔ اسی طرح این اے 89 میانوالی سے بھی بانی پی ٹی آئی کے کاغذاتِ نامزدگی سزا یافتہ اور نااہل ہونے کی بنیاد پر مسترد ہوئے۔ اب ان کی جگہ این اے 89 سے کورنگ امیدوار لامیا نیازی الیکشن لڑ سکیں گی۔
دوسری جانب، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی امیدواروں کو آر اوز کے دفاتر میں داخلے سے روکا جا رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر خان نے سماجی رابطے کے ذریعے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری اپنے پیغام میں کہا کہ آج عام انتخابات کی جانب پہلا قدم جنرل نشستوں کے لیے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، ملک بھر میں پی ٹی آئی امیدواروں کے خلاف ریاستی مشینری کا بے دریغ استعمال زوروں پر ہے۔ بیرسٹر گوہر خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ امیدواروں کے تجویز و حمایت کنندگان یا خود ان امیدواروں کو کھلے عام ہراساں اور تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جو الزامات چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے عائد کیے جارہے ہیں ان کی چھان بین ضرور ہونی چاہیے اور اگر واقعی ایسا ہورہا ہے تو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے تاکہ ایک اہم سیاسی جماعت کی شکایات کا ازالہ ہوسکے۔
انتخابات کے سلسلے میں ہونے والی ایک اہم پیشرفت یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو مذاکرات کی پیشکش کر دی ہے۔ ترجمان پی ٹی آئی معظم بٹ کا کہنا ہے کہ پی پی سے اتحاد پر تیار ہیں۔ پی ٹی آئی کا ایجنڈا بھی وہی ہے جس پر پی پی اور اے این پی بات کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو جو باتیں کر رہے ہیں اس سے ممکن ہے کہ سیاسی اتحاد کی فضا قائم ہو۔ اے این پی کو سیاسی سطح پر پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانا چاہیے۔ اسی طرح، پی پی رہنما فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی 9 مئی کے واقعات کی آڑ میں سیاسی انتقام کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کاغذاتِ نامزدگی چھیننے اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ جو ہوا اس کی مذمت کرتے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ کے انتخابات کے فیصلے پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے فیصل کریم کنڈی نے یہ بھی کہا کہ مولانا فضل الرحمن الیکشن سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر، مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے اپنی جماعت کے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سب ملک کر ایک ٹیم کی طرح ملک کو مشکلات سے نکالیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کی سب باتیں میرے دل میں اتری ہیں، آپ نے میری بہت مدد کی۔ میرٹ پر اپنا لوہا منوایا۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے لیے دن رات کام کر کے پراجیکٹ مکمل کرائے۔ یہ آپ کی خدمت کوئی معمولی خدمت نہیں۔ شہبازشریف نے مشکل حالات کا صبر کے ساتھ سامنا کیا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کی حکومت کے بارے میں بہت سارے لوگوں نے کہا تھا کہ حکومت نہیں لینی چاہیے تھی۔ شہباز شریف نے ملک کو معاشی خطرے سے بچایا۔ اگر ہم یہ ذمہ داری نہ لیتے تو پاکستان پر جو اثرات مرتب ہوتے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اپنے دور اقتدار میں صرف عوامی خدمت کو ترجیح دی ہے۔ اتحادی حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، میرے ہاتھ مضبوط کیے۔
نواز شریف نے جو کچھ کہا اگر اسے ایک جماعت تک محدود کرنے کی بجائے اس کا دائرہ تمام سٹیک ہولڈرز تک پھیلا دیا جائے تو یہ ملک اور عوام کے لیے بہت ہی مفید ہوسکتا ہے، یعنی صرف ایک جماعت کے ارکان ہی ایک ٹیم بن کر ملک کو مشکلات سے نکالنے کے لیے کوشش نہ کریں بلکہ تمام سیاسی جماعتیں اور سٹیک ہولڈرز مل کر ایک ٹیم بن جائیں اور ملک کو سنگین مسائل سے نکالنے کے لیے اپنے حصے کا کردار ادا کریں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان اس وقت جس مشکل صورتحال سے دوچار ہے اس سے نکلنے کے لیے تمام سٹیک ہولڈرز کو نہ صرف اپنا کردار ادا کرنا ہوگا بلکہ انھیں اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ ملک کے استحکام کے لیے انھیں کیا کیا قربانیاں دینے کی ضرورت ہے۔ اگر اس مرحلے پر بھی سیاسی جماعتوں نے باہمی کھینچا تانی سے گریز کرتے ہوئے معاملات کو سدھارنے کی کوشش نہ کی تو عوام کا اعتماد جمہوریت اور جمہوری اداروں پر مزید کم ہوگا۔
انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی کی جانچ پڑتال مکمل
Jan 01, 2024