اخلاقیات بہترمعاشرہ کامیاب

نیا سال شروع ہوچکا ہے ۔ایک مہینے بعد انتخابات ہونے طے ہیں ۔ عوام جنہیں ووٹ دیں گے وہ اقتدار کی مسند پر براجمان ہوں گے اور اپنی عقل،فکر اور قابلیت کے مطابق عوامی فلاح کیلئے کوشش بھی کریں گے۔لیکن ایک عام شہری کی حالت تب ہی بہتر ہو سکتی ہے جب معاشرے کی بنیاد اخلاقیات پر استوار کی جائے۔اس لیے کہ معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بنانے اور سنوارنے میں اخلاق کو نمایاں حیثیت حاصل ہے، بلکہ معاشرت کی پہلی بنیاد اخلاقِ حسنہ ہی ہے۔ حسن اخلاق کے بغیر انسان انسان نہیں رہتا؛ بلکہ درندگی و بہیمیت پر اتر آتا ہے۔اخلاقیات میں سب سے پہلے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک و خدمت گزاری کی تعلیم دی گئی ہے۔پھر بھائی بہنوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان و صلہ رحمی کا حکم دیا گیا، بیوی بچوں کے ساتھ محبت وشفقت اور اچھے رویے کی تاکید کی گئی ۔پھر سارے معاشرے کی بہتری کیلئے پڑوسیوں،رشتہ داروں ، دوستوں اور مسافروں تک کے ساتھ اچھا برتاؤکرنے اورپھر بغیر رنگ و نسل اور مذہب کی تمیز کیے انسانی بنیادوں پر ہر کسی سے بہترین سلوک اور احترام کا درس دیا گیا۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تمام مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی اور تمام انسانوں کے ساتھ ہر حال میں عدل و انصاف، رواداری اور مساوات کا درس دیا۔اس لیے کہ عدل کا مطلب ہی کہ کسی چیز کو اسکی اصل جگہ رکھ دیناہے۔اسلام نے باہمی معاملات کو مطلب پرستی اور خود غرضی نہیں؛ بلکہ ہمدردی و خیر خواہی کے جذبہ سے انجام دینے کی تعلیم دی۔
 اسلام کی اخلاقی تعلیمات کی روح ہمدردی و خیر خواہی، عدل و انصاف اور مساوات و احترامِ نفس ہے۔ اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ نہ صرف اعلی اخلاقی اصول وضع کیے بلکہ پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺ نے عملی طور پر اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرکے دکھایا۔ اور اچھے اخلاق کو اسلامی معاشرے میں لاگو کرکے دکھایا۔مدینہ کی ابتدائی زندگی میں مہاجرین و انصار صحابہؓ کے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایسے معاشرہ کی بنیاد رکھی جس میں اخلاق و محبت، ایثار و ہمدردی اور مساوات کی عکاسی ہوتی ہے ۔آپؐ کے زیر سایہ آپؐ کے ساتھیوں یعنی صحابہؓکی وہ جماعت تیار ہوئی جو رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں کیلئے اعلی ترین اخلاقی نمونے چھوڑ گئی۔
 جب اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمدﷺ کو اس دنیا میں لوگوں کی ہدایت کیلئے بیجھا اس وقت دنیا اخلاقی اعتبار سے کنگال اور دیوالیہ ہوچکی تھی۔ انسانیت و شرافت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔ تہذیب و اخلاق کے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے۔ تہذیب و تمدن کے گہواروں میں خود سری، بے راہ روی اور اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا۔ روم و ایران اخلاق باختگی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہے تھے۔ شراب عربوں کی گھٹی میں پڑی تھی۔ سودی لین دین، کمزوروں کا استحصال اور اس سلسلے میں بے رحمی و سخت گیری عام تھی۔ بے شرمی وبے حیائی، رہزنی و قزاقی معمولی بات تصور کی جاتی تھی۔ جنگ جوئی اور سفّاکی بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا تھا۔ بے جا انتقام اور تعصب کا شمار قوموں کی خصوصیتوں میں شمارہوتا تھا۔ ایسے اخلاق سوز اور غیر انسانی ماحول میں اسلام نے جو عمدہ اخلاقی نظام پیش کیا وہ ساری انسانیت کیلئے اکسیر ثابت ہوا۔اسلام نے اپنے ماننے والوں کو جھوٹ و بہتان طرازی، ظلم و ستم، بدسلوکی و بے رحمی، فریب و دھوکہ دہی، شراب نوشی و جوا بازی، زناکاری و بے حیائی، جنگ و جدال وغیرہ سے دور رہنے کا حکم دیا؛ جبکہ اسکے بالمقابل معاشرے میں عمدہ اخلاق کی تربیت پر ضرور دیا گیا ۔
 خلیفہ دوم تاریخ کے عظیم حکمران حضرت عمرؓ جن کے رعب و دبدبے کی مثالیں دی جاتی ہیں کبھی ان سے مسجد میں ان کے پہنے ہوئے کپڑوں کے بارے پوچھ لیا جاتا ہے اور کبھی جب آپؓ کی خلافت میں اسلامی ریاست کی حدیں ملکِ عرب سے نکل شام و مصر اور عراق و ایران تک پھیل چکی تھی،آپؓ بھرے مجمع میںلوگوں سے پوچھتے ہیں کہ بتاو! اگر مجھ میں کوئی غلطی دیکھو گے تو کیا کرو گے؟ مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ بخدا اگر تمہارے اندر کوئی کجی پائیں گے تو تلوار سے اس کو درست کردیں گے۔ کتب میں لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے اس شخص کے اس جملہ پر ارشاد فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو عمر کی کجی کو تلوار سے درست کردیں گے۔اس کے برعکس ہمارے آج کے حکمرانوں اور طاقتور طبقے کے لوگوں نے اپنے لیے بہت سے ایسے قانون بنوا لیے ہیں اور استحقاق حاصل کر لیے ہیںکہ انکے جرائم یا غلطیوں کے سامنے ہونے کے بعد بھی ان سے پوچھ گچھ اور سزا ناممکن ہے۔
نیاسال شروع ہو چکا ہے چلیں اس سال یہ سوچنے سمجھنے کو کوشش کریں کہ لوگ اخلاقیات،روایات اور اقدار کو مقدم رکھنے کی بجائے دھوکا،دھونس اور ناانصافی کی راہ پرکیوں چل پڑے ہیں۔ کیوں بحثیت قوم ہمارے اندر سے اخلاقیات ختم ہوتی جارہی ہے ۔کیوں قدرتی وسائل کی فروانی کے باوجود ایک بھکاری ملک کی پہچان رکھتے ہیں کیوں ہمارے حکمران ہر وقت بیرونی قرض پہ مجبور ہیں ۔کیوں ہمارے نوجوان اپنے مستقبل سے پریشان رہتے ہیں اور کیوں ہمارے لوگ دو نمبری اور چور بازاری سے دولت مند بننے کی کوشش میں رہتے ہیں ۔آخری بات یہی کہوں گا کہ کسی دھڑے،پارٹی یا فرد کی بجائے وفاداری ہر حال میں ریاست سے ہونی چاہیے۔ کچھ ہفتوں بعد انتخابات ہونے والے ہیں ،اپناووٹ ضرور دیجیے گا لیکن بلیٹ پیپر پر مہر لگانے سے پہلے امیدوار کی اخلاقیات اور قابلیت پر بھی دھیان کر لیجیے گا۔ پاکستان تب ہی ترقی کرے گا جب بحثیت قوم ہم شخصیت پرستی اور دھڑے بندیوں سے نکل کے قابلیت رکھنے والوں کا ساتھ دینا شروع کریں گے۔

ای پیپر دی نیشن