سال 2024ء کی خوش گمانیاں

ہماری قوم میں ایک اچھی بات ہے کہ سال گزشتہ کے خساروں کے باوجود آ نے والے نئے سال کا خوب دھوم دھڑکے سے استقبال کرتی ہے اور نئے جذبے ولولوں امید اور امنگوں کے ساتھ اسے مناتی دکھائی دیتی ہے۔ یہ اور بات کہ پھر سارا سال اسی یکسانیت اور چال بے ڈھنگی کا شکار رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کیلنڈر پر صرف ہندسے بدلتے ہیں اور ہم اپنے آ پ کو بدلنے سے قاصر رہتے ہیں جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ خدا نے آ ج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی    نہ ہو جس کو خیال آ پ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ ویسے بھی ایک عرصے سے ہماری بیچاری عوام کی حالت نہیں بدل سکی بلکہ اس کی حالت اور حالات کو بدلنے والوں نے اپنے حالات ضرور بدلے ہیں بلکہ بہت سوں کی تو نسلیں بھی بدل اور سنور گئی ہیں۔ عوام کے لیے تو بس بجلی گیس اور واسا کے بلوں کی ادائیگی باقی رہ گئی ہے۔ ہر آنے والے سال میں کئی برہمن سال کے اچھا ہونے کی پیش گوئیاں کرتے رہتے ہیں لیکن سال گزرنے تک یہ خوش گمانیاں بد گمانیوں میں بدل جاتی ہیں۔
سال 2024ء الیکشن کا سال ہے۔ عوام کی رائے کو اولیت اور اہمیت دینا نہایت ضروری ہے۔ دیکھیں قطرے سے گہر ہونے تک کیا صورتحال بنتی ہے۔ ابھی تو الیکشن اور الیکشن کمیشن پر تحفظات سامنے آ رہے ہیں اور اسے یکطرفہ قرار دیا جا رہا ہے۔ پارٹیاں بدلنے والے پھر سے اقتدار کی چھتری میں آ نے کے لیے پر تول چکے ہیں۔ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جانے والوں کی سابقہ پارٹی کے لیے مخالفت اور نئی پارٹی کی تعریفیں سن کر ان کی باتوں اور عقل ہر ہنسی آ تی ہے۔ الیکشن عوامی امنگوں اور آ ئین و قانون کے مطابق ہوتے ہیں تو سب کے لیے قابل قبول ہوں گے بصورت دیگر ملک میں پھر سے بے چینی اور بے یقینی کی فضا قائم ہوگی کیونکہ
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی 
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
اس لیے ملک کے تمام حلقوں کو حالات کی تبدیلی کے اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے اور اس نئے سال کی شروع ہونے پر ملک سے انتقامی سیاست کے خاتمے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ تمام سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کو ریاست اور ریاستی اداروں کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے سیاسی اختلافات کی وجہ سے ملکی مفادات کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہیے۔ حالات بتا رہے ہیں کہ اب کوئی بھی نظریہ اہمیت نہیں رکھتا سوائے نظریۂ ضرورت کے اس لیے نظریۂ ضرورت پر تمام نظریے قربان کر دیے جاتے ہیں۔ اس لیے ہمارے ملک میں مفاداتی چلن عام ہے۔ جس پر ہمارا آ ج کا سیاسی نظام بھی کھڑا ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود امید کے جگنو ہمیں اندھیروں سے اجالوں کی طرف آ نے کی نوید دے رہے ہیں۔ کاش اس سال 2024ء کی خوش گمانیوں میں ہمارے ملک سے بجلی اور گیس کے بحران سے ہمارے حکمران عوام کو نجات دلائیں۔ مہنگائی کو کنٹرول کریں اور بے روزگاری کا خاتمہ کریں۔ ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے پولیس کو مستعد اور مصروف کیا جائے نہ کہ اسے حکومتی منشا پروٹوکول اور سیاسی مخالفین کے لیے استعمال کیا جائے۔ محض نعرے لگانے اور بیانات داغنے سے مسائل اور معاملات حل نہیں ہوتے بلکہ اس کے لیے تعصب اور کینہ پروری کی عینک اتار کے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔
دسمبر کو بے درد دسمبر بھی کہا جاتا ہے کہ سال کے اختتام پر بہت سوں کے بچھڑنے کا دکھ بھی سامنے آ تا ہے۔ دسمبر کے مہینے میں دنیائے شعرو ادب کی معروف ہستیوں منیر نیازی اور پروین شاکر کی یاد بھی ستاتی ہے۔ عرش صدیقی کی مشہورِ زمانہ نظم ’اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے‘ کی گونج اور بازگشت بھی ہر جگہ سنائی دیتی ہے۔ ایسے میں دسمبر کی یخ بستگی کا احساس اور بھی نمایاں ہو جاتا ہے اور دسمبر وچھوڑے کا عنوان بن کے رہ جاتا ہے۔ سال گزشتہ میں بھی بہت سوں کو بہت سے پیاروں کے بچھڑنے کا دکھ برداشت کرنا پڑا۔ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ
کتابِ عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمھیں نکال کے دیکھا تو سب خسارہ ہے
بہرحال اس خسارے اور پچھتاوے کے باوجود نئے موسم نئی امنگوں اور نئی ترنگ کے ساتھ سال 2024ء کا اغاز ہو چکا ہے۔ خدا کرے یہ نیا عیسوی سال عالم اسلام اور ساری دنیا کے لیے امن، پیار، محبت اور خوشحالی کا سال ہو اور سب بے مرادوں کی مرادیں بر آ نے کا سال ہو۔ فلسطین کے نہتے اور بے گناہ شہریوں پر ظلم و تشدد اور آ ہ و بکا بھی ہماری خوشیوں اور شب وروز کے معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈال سکی۔ مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم وستم کے پہاڑ بھی ہمارے میلے ٹھیلوں اور طرب کی محفلوں پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔ بس سوشل میڈیا اور دعاؤں میں ہم ضرور ان مظلوموں کے ساتھ ہیں کہ شاید عالمی اور قومی سطح پر ہم سب اس سے زیادہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ خدا کرے کہ سال 2024ء ہماری بے بسی اور بے حسی کے ان بادلوں کے چھٹنے کا سال ثابت ہو اور ہمارے وسیب کے شاعر ڈاکٹر عاصی کرنالی کا یہ پیغام محبت عام ہو کہ
میں محبت ہوں مجھے آ تا ہے نفرت کا علاج
تم ہر اک شخص کے سینے میں مرا دل رکھ دو

٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن