اخبارات میں جگہ نہ پا سکنے والی ایک خبر

ملکو کو ’’نک دا کوکا‘‘ تو خیر نہ مل سکا لیکن پی ٹی آئی کو اپنا پرانا انتخابی نشان بَلّا ضرور مل گیا۔ سنا ہے وہ پھر چھینا جا رہا ہے ۔ اعتراض کیا گیا ہے کہ ایک صوبے کا ہائیکورٹ پورے ملک کے لئے فیصلے کیسے کر سکتا ہے ؟ کل کیا ہوگا ، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ لیکن آج ملک بھر میں بَلّے کی بلّے بلّے ہو ررہی ہے ۔ ن لیگ والے یہ صورت احوال دیکھ کر جھینپی جھینپی سی ہنسی ہنس رہے ہیں۔ بہر حال پی ٹی آئی کے امیدواروں کی تعداد ن لیگی امیدواروں سے زیادہ ہے ۔ ان حالات میں مقابلہ کڑا بھی ہوگا اور کڑوا بھی ۔ ہم حالت جنگ جیسی حالت الیکشن میں ہیں۔ 
ہر طرف اک پاگل پن ، جنون اور وحشت طاری ہے ۔ شدیدنفرت اور عقیدت میں گوندھے اس معاشرے میں کوئی بھی دیانتداری سے اپنی رائے قائم کرنے کو تیار نہیں۔ سبھی اپنے اپنے ’’چوروں ‘‘کا دفاع کر رہے ہیں۔ وہ انہیں ہر قیمت پر الیکشن جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ 
لیکن مزے اور حیرت کی بات یوں ہے کہ ہر عوامی اجتماع اور شادی بیاہ کی تقریب میں یہی ایک سوال بار بار ڈسکس ہو رہا ہے ۔ کیا 8فروری کو الیکشن ہونگے؟ اڈیالہ جیل کے قیدی نمبر 804سے اور طرح کی روایت منسوب کی جا رہی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ الیکشن ایک نہیں دو ہونگے ۔ ایک الیکشن 2024ء میں اور دوسرا 2025ء میں ہوگا۔ یعنی اس غریب ملک میں بس الیکشن ہی ہوا کرینگے ۔ جبکہ ہمارے ملکی مالی حالات اتنے پتلے ہیں کہ پچھلے دنوں لاہور اور اس کے چند نواحی شہروں میں مصنوعی بارش برسائی گئی ۔ اس پرموسم قدرے خوشگوار ہو گیا۔ اس خبر کا سب سے خوشگوار پہلو یہی تھا کہ سرکار نے یہ بتانا ضروری سمجھا کہ ہمیں یہ بارش مفت میں پڑی ہے ۔ ہمارا کچھ خرچ نہیں ہوا۔
 اس خبر سے ہماری قومی غیرت پر جوں تک نہیں رینگی کہ ہم خیر خیرات کی مد میں دی گئی مفت کی بارش کیوں لے رہے ہیں ؟ہمارے ہاں کے امیر کبیر لوگوں کو اس پر شرم محسوس کرنی چاہئے کہ انگریزوں ، یہودیوں کی خیرات سے وہ بھی تو مستفید ہو رہے ہیں۔ امداد کی خبر سے ایک مرتبہ تو ہماری قومی باچھیں کِھل جاتی ہیں۔ بعد میں چاہے وہ امداد قرضہ ہی نکل آئے۔ 
ان حالات میں ایسی خبر اخبارات کے صفحہ اول پر کیسے جگہ پا سکتی تھی ۔ سو نہ پاسکی ۔ اس’’ غیر اہم‘‘ خبر کو صرف ایک اخبار کے آخری صفحوں میں ہی جگہ مل سکی۔وہ خبر یوں ہے ۔
 2006ء میں متروکہ وقف بورڈ آف پاکستان کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ذو الفقار علی خاں تھے ۔ انہوں نے ملک بھر کے مندروں ، گوردواروں کے نام پر غیر مسلم وقف املاک کے کرایوں کی از سر نو تشخیص کرتے ہوئے انہیں اس وقت کے مارکیٹ ریٹ کے مطابق کرنے کی منظوری دی ۔ بعض کرایہ داروں نے چیئرمین بورڈ کے فیصلے کے خلاف فوراً پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ 
جولائی 2006ء میں چیئرمین بورڈ کے فیصلہ کے خلاف ایک حکم امتناعی جاری کر دیا گیا جس کے سبب چیئرمین بورڈ کے حکم پر عملدرآمد رک گیا۔ اخباری خبر میں ایک قانونی مشیر کا ذکر بھی آیا ہے ۔ خبر میں یہ بات بڑے اہتمام کے ساتھ ان کے کارنامہ کے طور پر بیان کی گئی ہے کہ وہ مقدمہ کی مسلسل 17برس پیروی کرنے کے بعد حکم امتناعی خارج کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
 اس مرحلہ پر کالم نگار کو ایک واقعہ یاد آگیا۔ ایک ہاکی میچ کے اختتام پرایک تماشائی نے ایک کھلاڑی سے کہا : ’آپ کی اس میچ میں کارکر دگی ناقابل فراموش ہے ۔ کھلاڑی شرماتے ہوئے بولا۔ لیکن میں تو اس میچ میں کسی خاص اچھے کھیل کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ تماشائی کہنے لگا۔ نہیں ۔ آپ نے اپنے کھیل سے جس طرح مخالف ٹیم کی مدد کی ہے اسے مدتوں یاد رکھا جائیگا‘۔ 
اب حکم امتناعی خارج ہو جانے والی خبر میں یہ تو درج ہے کہ اس سے سالانہ ایک ارب روپے آمدنی ہو جایا کریگی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس حکم امتناعی کے باعث ان 17برسوں میں کتنا نقصان ہوا ہے ؟ خبر میں یہ بھی درج نہیں کہ محکمہ کو حکم امتناعی خارج کروانے میں کتنے قانونی اخراجات برداشت کرنے پڑے ہیںاور وہ کتنے برسوں کی کرایہ کی آمدنی سے پورے ہو سکیں گے ؟ 
ہم ایسی اطلاعات کو ہمیشہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جن سے قابل مواخذہ افسروں اور اہلکاروں کی تادیب ممکن ہو سکے ۔ سولر پینل کی آڑ میں 70ارب روپوں کی منی لانڈرنگ میں بینکوں کی جانب سے غفلت برتنے کا انکشاف ہوا۔ منی لانڈرنگ کا جرم ثابت ہونے پر بینکوں کو صرف 9کروڑ روپیہ جرمانہ کیا گیا۔ 
ا بھی اسٹیٹ بینک کی جانب سے سہولت کار 17بینکوں کے نام بھی بتانے سے گریز کیا جا رہا ہے ۔ منی لانڈرنگ کرنے والے اشخاص کے نام بہت بعد کا معاملہ ہے ۔ لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم ہے کہ درگاہ حضرت لعل شہباز قلندر سے ایک ماہ میں 1کروڑ 23لاکھ 72ہزار 863روپوں کا نذرانہ میں دیا گیا سوناچوری ہوا ہے ۔ ملزمان سے کیا سلوک ہوگا؟ ’’انشاء اللہ ‘‘عدالت 17برس بعد انہیں عدم شہادت پر بری کر دیگی ۔ 
اس لوٹ کھسوٹ کی طرف سب سے پہلے ظہیرالاسلام عباسی کی نظر پڑی ۔ یہ ایک میجر جنرل تھے ۔ انہوں نے بینظیر بھٹو کے عہد میں مارشل لاء لگانے کی ناکام کوشش کی ۔ ان کا کورٹ مارشل ہوا۔ سزا بھگتنے کے بعد ان سے ایک مرتبہ کونسل آف نیشنل افیئرز کے اجلاس میں گفتگو کا موقعہ ملا۔ 
مارشل لاء کی کامیابی کی صورت میں کی جانے والی نشری تقریر ان کی کتاب میں موجود ہے ۔ اپنے پہلے مارشل لائی حکم میں انہوں نے تمام مسلم غیر مسلم اوقاف ، ریلوے ، جنگلات ، ہائی وے ، محکمہ ٹورازم ، میونسپل کارپوریشن ، ڈسٹرکٹ کونسل غرض تمام صوبائی اور وفاقی محکموں کی ملکیتی زمین میں سے پلاٹوں اور رقبوں کی لیز کی منسوخی کا اعلان تھا۔ وہ ان پر کی گئی تمام تعمیرات بحق سرکار ضبط کر رہے تھے ۔ ان کی رائے میں ان لوگوں نے بہت ارزاں نرخوں پر عرصہ دراز تک یہ سرکاری رقبہ استعمال کیا ہے ۔وہ تلافی کے طور پر ان کی تمام تعمیرات کو ضبط کر لینا عین انصاف سمجھتے تھے۔ 
ظہیر الاسلام عباسی ایک باریش ، پابند صوم و صلوٰۃ اور مذہبی خیالات رکھنے والے فوجی افسر تھے ۔ وہ پاکستانی فوج کو ایک اسلامی فوج بنانے کی ترکیب بھی بتاتے رہے ۔ ان کی بطور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نشری تقریر جسے کرنے کا انہیں موقعہ نہ مل سکا، میں ویڈیو کیسٹ کرایہ پر دینے والی دکانوں کی بندش کا حکم بھی موجود تھا۔ وہ وی سی آر کا زمانہ تھا۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن