عوام اور پارلیمنٹ کے ارکان کی رہنمائی کےلئے میں بے نظیر بھٹو صاحبہ اور آصف علی زرداری کے خلاف نیب کے مقدمات کے حوالہ سے چشم کش واقعات بیان کر رہا ہوں۔ اکتوبر2005ءمیں نیب کے اس وقت کے چےئرمین لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ اور وائس چےئرمین حسن وسیم افضل میرے پاس محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسٹر آصف علی زرداری کے کرپشن کے بارے میں اہم دستاویزات لیکر آئے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسٹر آصف علی زرداری نے عوامی نمائندگی ایکٹ 76کی دفعہ 42-Aاور سینٹ کی دفعہ 25-Aکے تحت کاغذات نامزدگی کے دوران انہوں نے اپنے اثاثوں جاتوں کے بارے میں حقائق چھپائے ہےں اور اس ضمن میں نیب نے مکمل تحقیقات جو تقریباً ڈھائی سو صفحات پر مبنی دستاویزات پر مشتمل ہے وہ مجھے بطور وفاقی سیکرٹری الےکشن کمیشن آف پاکستان کے پیش کی اور اصرار کیا کہ الےکشن کمیشن آف پاکستان ان دونوں شخصیات کے خلاف مقدمہ عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 78کے تحت درج کرائے جو Corrupt Practiceکے زمرے میں آتے ہےں۔ میں نے ذاتی طور پر ان دستاویزات کا مطالعہ کیا جن میں حیران کن انکشافات کا انبار لگا ہوا تھا۔ الےکشن کمیشن آف پاکستان پر نیب نے ایوانِ صدر سے بھی دباﺅ ڈالنے کی پوری پوری کوشش کی اور اِسی دستاویزات کو نیب نے سوئس عدالت میں جمع کرائی اور پاکستان کی نمائندگی اس وقت کے اٹارنی جنرل مخدوم علی خان سوئس عدالت میں بھی پیش ہوتے رہے ۔ اس وقت کے چیف الےکشن کمشنر محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسٹر آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بارے میں ہجکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے اور بطور وفاقی سیکرٹری الےکشن کمیشن آف پاکستان میں نے ہی مشورہ دیا کہ الےکشن کمیشن کو اس اہم قومی اہمیت کے حامل معاملہ میں فریق نہیں بننا چاہےے۔ اس دوران لیفٹیننٹ جنرل منیر اے حفیظ کا نیب سے تبادلہ ہو گیا اور ان کو کور کمانڈر بہاول پور مقرر کر دیا گیا اور لاہور کے کور کمانڈر جنرل شاہد عزیز بھی ریٹائرڈ ہو گئے اور ان کو نیب کا نیا چےئرمین مقرر کر دیا گیا۔ میں نے جنرل شاہد عزیز کو محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے حوالہ سے مقدمہ کے اس دستاویزات پر مشورہ کیا جو الےکشن کمیشن آف پاکستان نے حسن وسیم افضل بطور وائس چےئرمین نیب بطور ریفرنس کر چکے تھے۔ میں نے جنرل شاہد عزیز کو باور کرایا کہ اگر الےکشن کمیشن آف پاکستان اس قومی اہمیت کے حامل مقدمہ میں فریق بنایا گےا تو پھر آئندہ ہونے والے الےکشن میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں الےکشن کمیشن پر عدم اعتماد کا اظہار کر دے گی اور الےکشن کمیشن اپنی ساکھ کھو بیٹھے گا اور الےکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے آزادی اور بغیر تعصب کے انتخابات کرانا مشکل ہو جائے گا۔ میں نے جنرل شاہد عزیز کو بتایا کہ الےکشن کمیشن اس مقدمہ میں فریق بننے کے بعد عام انتخابات کرانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گا۔ جنرل شاہد عزیز نے میرے موقف کو تسلیم کر لیا اور حسن وسیم افضل کو ہدایت جاری کی کہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف جو ریفرنس الےکشن کمیشن میں بھیجا گیا اس کو واپس لے لیا جائے اور ےہی موقف میں نے ایوانِ صدر کی اعلیٰ شخصیات کے سامنے پیش کیا انہوں نے بھی ہمارے دلائل کی توثیق کر دی۔ بعد ازاں نیب نے بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدمہ عوامی نمائندگی کی دفعہ 82کے تحت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں دائر کر دیا جو بعدازاں این۔آر۔او کے تحت ختم کر دیا گیا۔ ہمارے سیاسی رہنما عدالتیں اور پارلیمنٹ سوئس عدالتوں مین مقدمہ ختم ہونے کے بارے میں تو دلائل دے رہے ہےں لےکن ان کی توجہ حسن وسیم افضل صاحب کی جانب سے جو مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں دائر کیا گیا تھا ادھر نہیں جارہی۔ جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے دسمبر2009ءمیں این۔آر۔او کو کالا قانون قرار دیکر کالعدم قرار دے دیا تھا تو اس کی روشنی میں ڈسٹرکٹ اینڈ شن جج اسلام آباد کی عدالت میں دائر مقدمہ بھی خود بخود بحال ہونا چاہےے۔
حکومت سوئز رلینڈ کی طرف سے صدر زرداری کے مقدمات کی مدت ختم ہونے کے حوالہ سے جو خط لکھنے کی باتیں گردش کر رہی تھی وہ گمراہ کن تھی۔ کیونکہ موجودہ مقدمہ 1997ءمیں نہیں بلکہ 2004ءمیں شروع ہوا تھا۔ ےہ اہم قومی مفاد کے حوالہ سے مقدمہ دفن نہیں ہوا ہے۔ 2004ءمیں پاکستان کے اسی وقت کے اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے نیب اور وفاقی حکومت کی نمائندگی کی تھی اور وہ باقاعدگی سے سوئس عدالت میں پیش ہوتے رہے ۔ ےہ بین الاقوامی کرپشن کے حوالہ سے اہم کیس ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت اسے اپنے حق میں ڈھالنے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے اور اسی حکومت کے حامی اینکر پرسنز سوئس مقدمات کے بارے میں گمراہ کن اطلاعات کے ذرےعے اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کر رہے ہےں۔ تاہم تمام حقائق تبدیل نہیں ہو سکتے۔ میری لندن میں بیرسٹر افتخار سے ملاقات ہوتی تھی۔ ان کا کہنا تھا پیپلز پارٹی حقائق بدل نہیں سکتی ۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا تھا کہ 1997ءمیں جو مقدمہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور مسٹر آصف علی زرداری کے خلاف جو دائر ہوا تھا اسے اس وقت کے جج ڈیورڈ کی طرف سے اس مقدمہ میں سزا جو بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کو چھ ماہ کی سزا دی گئی تھی وہ معطل کر دی گئی تھی۔ 2004ءمیں جج فورنٹیر نے اےک نیا مقدمہ قائم کیا تھا جنہوں نے نئی شہادت کے ساتھ مقدمہ کی سماعت کی تھی۔ اس مقدمہ میں بے نظیر بھٹو بذاتِ خود ان کے روبرو پیش ہوئی تھی۔ اسی طرح ےہ بالکل نیا مقدمہ تھا جس میں نئے شواہد پیش کئے گئے تھے جنہیں جج نے ریکارڈ کیا تھا۔ 2007ءمیں این۔آر۔او سے تین دن قبل اس نئے مقدمہ میں آخری شہادت بھی جج فورنٹیر نے ریکارڈ کر لی تھی۔ مگر اسی اثناءمیں پاکستان کی طرف سے اس وقت کے اٹارنی جنرل جسٹس عبدالقیوم کی طرف سے سرکاری خطوط بھیجے گئے کہ ےہ مقدمہ ختم کیا جائے اس طرح اس کا فیصلہ نہیں سنایا گیا تھا۔ حالانکہ اٹارنی جنرل جسٹس ملک عبدالقیوم کو سوئس حکام کو خط لکھنے کی منظوری صدر مملکت جنرل پرویز مشرف سے بھی لینی چاہےے تھی اور وزارتِ قانون و انصاف نے رولز آف بزنس کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ۔ اِس مقدمہ کا اہم نکتہ محور ےہ ہے کہ اگر مقدمہ ختم ہونے کی مدت 15سال میں اپلائی کی جانی تھی تو ےہ 2004ءکے مقدمہ کی ہو گی۔ اس مقدمہ کے خاتمہ کی مدت 2019ءکے مقدمے کی ہو گی جومقدمہ کے خاتمہ کی مدت ہے۔
موجودہ حکومت کو وزارتِ قانون و انصاف میں اےسے ماہرین کی خدمات حاصل کرنی چاہےے جن کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہ ہو اور پروفیشنلز میں ان کا اپنا مقام ہوا۔ اس لئے حکومتِ پاکستان کو فوری طور پر این۔آر۔او جاری ہونے سے قبل ریکارڈ کئے گئے فیصلہ کا مطالبہ کر دینا چاہےے اور اس فیصلہ کی روشنی میں سوئس حکام کو اےک نیا ریفرنس دائر کرنا چاہےے جس میں ےہ مطالبہ ہو کہ سوئس حکام این۔آر۔او اجراءکے بعد جاری ہونے والی اس رقم کا سراغ لگائیں جو بقول بیرسٹر افتخار کے زیر زمین منی لاڈرنگ کی بھول بھلیوں میں گم کر دی گئی ہے۔ سوئس قانون کے تحت کوئی بھی ایسی رقم جو ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو چھپائی نہیں جاسکتی۔ ےہ بات بالکل غلط ہے کہ سوئس مقدمات کی مدت ختم ہو گئی ہے۔ کیونکہ اس وقت کی سابقہ حکومت حقائق کو مسخ کرنے اور شواہد کو چھپانے میں پرعزم تھی اور ان کے وکلاءنے سوچے سمجھے منصوبے بندی کے تحت سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل کروا کے عوام کی توجہ تبدیل کرا دی تھی۔
اس وقت اور حکومت پاکستان کے کرپٹ سیاسی رہنماﺅں نے سوئس حکام کا خط چھپا دیا تھا جس میں ےہ بیان کیا گیا تھا کہ حکومت پاکستان کے پاس اپیل کرنے کے لئے 10دن کا وقت ہے اور ےہ اپیل فوری طور پر کر دینی چاہےے۔ لےکن صدر زرداری کو بچانے کےلئے ایسا نہیں کیا گیا اور اعتزاز احسن کے بعد فاروق نائیک نے انتہائی مہارت سے بے ضررر، بے وقعت نما خط سوئس حکام کو بھجوادیا۔ اب موجودہ حکومت کو سوئس حکام کو ےہ خط لکھ سکتی ہے کہ وہ اس اہم قومی مفاد پر مبنی معاملہ کو پھر سے زیر غور لایا جائے کیونکہ ان مقدمات کی مدت ختم نہیں ہوئی ہے کیونکہ ان مقدمات میں جو نئے شواہد ریکارڈ کئے گئے ہےں۔
ےہ سوئس ضرورت کو پورا کرتے ہےں۔ لہٰذا حکومت کو بیرسٹر افتخار احمد کی خدمات سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہےے۔ کیونکہ وہ رقم جو این۔آر۔او کے بعد کسی دوسرے ملک میں منتقل کر دی گئی ہے واپس لائی جاسکتی ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے این۔آر ۔او کو غیر قانونی قرار دئےے جانے کے بعد اس رقم کی دیگر اکاﺅنٹس میں منتقلی کے عمل پر منی لانڈرنگ کا اےک نیا مقدمہ بن سکتا ہے۔ اگر صدر زرداری ےہ رقم لے گئے ہےں تو اس رقم کو پاکستان بھیجا جانا چاہےے تھا تو ےہ یقینا پاکستان اور سوئزرلینڈ میں نئے مقدمہ کی بنیاد ہو گی جب کہ سوئزر لینڈ میں اس مقدمہ کی قانونی امداد کی اجازت دے دی جائے گی۔ بیرسٹر افتخار صدر زرداری کے خلاف سوئس مقدمات میں ان اہم مقدمات سے منسلک رہے ہےں۔