نوازشریف کا دورہ چین اور توقعات

نوازشریف کا دورہ چین اور توقعات

 پاکستان کے وزیراعظم محمد نوازشریف عنقریب چین کا دورہ کرنے والے رہیں۔ اس دورے کی دعوت انہیں چین کے وزیراعظم نے دورہ¿ پاکستان کے دوران دی تھی جسے نوازشریف نے خندہ پیشانی اور کھلے دل سے قبول کر لیا تھا اور آجکل وفاقی سیکرٹری برائے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ چین کے دورے پر ہیں وہاں وہ پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں ہونے والے معاہدوں کی تفصیلات طے کر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستانی وزیراعظم کا دورہ¿ چین بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ گزشتہ پانچ سالوں میں جان بوجھ کر چین اور پاکستان کے معاشی تعلقات میں سرد مہری پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پاکستان اور چین بہت سے منصوبے مل کر کر رہے تھے جن میں توانائی کے منصوبے بہت اہم تھے اور خصوصاً پنجاب میں نندی پور پاور پراجیکٹ اور نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ۔ ان دونوں اہم منصوبوں میں چین کی سرمایہ کاری کے علاوہ تکنیکی تعاون بھی تھا لیکن سابقہ حکومت نے جان بوجھ کر ان دونوں منصوبوں میں ایسی رکاوٹیں پیدا کیں کہ نہ صرف منصوبے فریز ہو گئے بلکہ چین اور پاکستان کے تعلقات میں بھی سردمہری کا عنصر شامل کرنے کی کوشش کی گئی۔ وہ تو چینی قیادت کی معاملہ فہمی اور فراست ہے کہ انہیں حقائق تک رسائی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے اپنا مالی اور جانی نقصان برداشت کیا لیکن پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے شیشے میں بال برابر بھی نشان نہیں پڑنے دیا۔ یہی سبب ہے کہ اقتدار میں آتے ہی وزیراعظم محمد نوازشریف نے توانائی کا مسئلہ حل کرنے کے لئے اپنے چھوٹے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کے ساتھ مل کر لوڈشیڈنگ ختم کرنے اور توانائی فراہم کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر کام شروع کیا ہوا ہے۔ نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ اور نندی پور پاور پلانٹ کے لئے چین نے نہ صرف سرمایہ فراہم کیا ہے بلکہ مکمل تکنیکی معاونت بھی کر رہا ہے جس کی وجہ سے توانائی کے شعبہ میں دونوں منصوبے جلد از جلد مکمل کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان کی معاشی ترقی سے خائف دشمن اپنی ان تمام کوششوں میں ناکام ہو چکے ہیں جن کا بنیادی مقصد پاک چین دوستی میں خلل پیدا کرنا تھا۔
وزیراعظم محمد نوازشریف کے دورہ¿ چین کے دوران سب سے اہم اور میگا پراجیکٹ کاشغر سے براہِ راست خنجراب گوادر تک ریل اور سڑک کی تعمیر ہے جو سلک روڈ کی طرح یقیناً ایک عجوبہ سے کم نہیں ہو گی۔ اس میگا پراجیکٹ سے پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو جائے گی۔ بے روزگاری ختم ہو گی اور پاکستانی مصنوعات کو سینٹرل ایشیا کے ممالک تک کاروباری رسائی حاصل ہو جائے گی۔ سستے ترین ذرائع نقل و حمل استعمال کرنے سے پاکستانی بزنس مینوں کے منافع میں بھی معقول اضافہ ہو گا۔ توانائی کے شعبہ میں دوسرے معاہدوں پر بھی دستخط ہوں گے۔
تعلیم، فنی تعلیم، صحت، کان کنی، توانائی کے متبادل ذرائع جیسے شمسی توانائی اور بائیو گیس اور چھوٹے چھوٹے بند بنا کر بجلی کا حصول بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ ویسے تو تمام معاہدے بہت اہم ہیں لیکن اس وقت عوام متبادل توانائی کے طور پر شمسی توانائی میں بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اس لئے وزیراعظم محمد نوازشریف اور محمد شہباز شریف کو چاہئے کہ وہ پنجاب میں شمسی توانائی کے سولر پینلز تیار کرنے کا مشترکہ منصوبہ بھی پیش کریں۔ چین کبھی انکار نہیں کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن