میں اپنے شہر میں شادی کی ایک تقریب میں سابق صدر پاکستان محمد رفیق تارڑ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔اسی تقریب میں آئی جی پنجاب احمد نسیم بھی موجود تھے اچانک ان کی نظر پاک دل و پاکباز، محمد رفیق تارڑ پر پڑی۔ وہ انہیں سلام کرنے کیلئے ان کے پاس پہنچ گئے۔ (دونوں آپس میں ”گرائیں“ ہیں۔ دونوں کا تعلق گوجرانوالہ کے ایک گاﺅں سے ہے)۔ احمد نسیم نے خاموشی سے محمد رفیق تارڑ سے ہاتھ ملایا اور واپسی کیلئے مڑنے لگے۔ میں نے انہیں کچھ لمحوں کیلئے یہ کہتے ہوئے روک لیا”سر آپ نے اچھا کیا کہ تارڑ صاحب سے ہاتھ ملانے پر ہی اکتفاءکیا۔ ان کی خیر خیریت دریافت نہیں فرمائی۔ آ پ سے زیادہ اس حقیقت سے کون آگاہ ہے کہ پنجاب بھر میں کوئی بھی خیریت سے نہیں“۔ یہ چودہری پرویز الٰہی کی وزارت عُلیہ کا دور تھا۔ پھر میاں شہبازشریف وزیراعلی بن گئے لیکن امن و امان کی ڈگر کچھ وہی رہی۔ اس زمانے میں یہ الفاظ کانوں کو کچھ غیر مانوس نہیں لگتے تھے۔ ©©’اشتہاری اور اشتہاری راج ۔ اغواءبرائے تاوان اور بھتہ‘۔ ایک دن میں نے اپنے گھر کی چھت سے دن دیہاڑے ایک خوفناک منظر دیکھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے پیپلزپارٹی کالونی مارکیٹ میں ایک بھرے پڑے جنرل سٹور کو اندھا دھند فائرنگ کے دوران آگ لگا کر تباہ کر دیا گیا۔ فائرنگ کرنے والا ایک معروف اشتہاری تھا۔ ان دنوں آر پی اور گوجرانوالہ صرف نعتیں لکھنے میں مصروف رہتے تھے۔ پولیس افسران کے اشتہاریوں سے روابط کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں تھی۔ اس زمانے میں یہ لطیفہ زبان زد عام تھا۔ یہ لوک لطیفے حالات کے مکمل عکاس ہوتے ہیں۔ کسی گھر میں ڈاکو آ گئے۔ گھر میں کلاشنکوف دیکھ کر ڈاکو بھاگ کھڑے ہوئے۔ صبح پولیس کے جوان آن دھمکے۔ اب وہ کلاشنکوف کی بابت سوال جواب کرنے لگے۔ انہیں بتایا گیا کہ گھر میں کلاشنکوف موجود ہے۔ لیکن یہ اصلی والی نہیں، یہ بچوں کا کھلونا ہے۔ یہ سن کر وہ چلے گئے۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ڈاکو پھر واپس آ گئے۔ اب محکمہ پولیس کے ایک لیجنڈافسر ذوالفقار احمدچیمہ کا یہاں بطور آر پی او تقرر کیا گیا۔ وہ بھی گوجرانوالہ کے قابل فخر فرزند ہیں۔ میں نے ان کے بارے میں ایک رائے قائم کی تھی ۔ میں آج تک اپنی اس رائے پر قائم ہوں۔ ”محکمہ پولیس کے وکٹری سٹینڈ پر ذوالفقار احمد چیمہ اکیلے کھڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہی اول، وہی دوم ، وہی سوم“۔ اسی زمانے میں پنجاب میں میاں شہبازشریف وزیراعلی پنجاب کو ہٹا کر گورنر راج نافذ کر دیا گیا۔ آر پی او ذوالفقار احمد چیمہ کی بھی تبدیلی کر دی گئی۔ گورنر راج کے زمانے کا ایک واقعہ لکھے دیتا ہوں ، پوری کہانی آپکے ذہن میں آجائیگی۔ تحصیل وزیر آباد سے احمدی ایک نامی گرامی اشتہاری تھا۔ احمدی ایک روز دن دیہاڑے گکھڑ کے قریب جی ٹی روڈ پر واقع ایک فیکٹری میں آ گیا۔ اس نے دستی بم کا دھماکہ کر کے اپنی آمد کا اعلان کیا۔ پھر وہ بآواز بلند کہنے لگا”نہ ہی اب میاں شہبازشریف وزیراعلی پنجاب رہے ہیں اور نہ ہی ذوالفقار احمد چیمہ آر پی او گوجرانوالہ، پھر مجھے بھتہ بھجوانے میں اتنی دیر کیوں؟“۔ گورنر راج ختم ہونے پر میاں شہبازشریف نے دوبارہ ذوالفقار احمد چیمہ کو آر پی او گوجرانوالہ مقرر کر دیا۔ پھر تو شہریوں نے آر پی او آفس کو پھولوں بھر ی گلی بنا دیا۔ ہاں! اور یہ بات بھی سن لیں کہ یہی اشتہاری احمدی ذولفقار احمد چیمہ کے زمانے میں ایک پولیس مقابلہ میں مارا گیا تھا۔ اب ایک سوال آپ کے ذہن میں ضرور آیا ہو گا۔ میرے ذہن میں بھی یہ سوال آیا ہے کہ ذوالفقار احمد چیمہ کو آئی جی پنجاب کیوں نہیں لگایا گیا۔ کیا میاں شہباز شریف کو جرائم کی بیخ کنی مقصود نہیں؟ اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں تاریخ کے صفحات کھنگالنے پڑیں گے۔ جب نادر شاہ نے دلی فتح کر لی تو اسے بتایا گیا کہ یہ ایک روایت ہے کہ فاتح ہاتھی پر سوار ہو کر دلی میں داخل ہوتا ہے۔ نادر شاہ نے ہاتھی پر چڑھ کر اس کی باگیں پکڑنی چاہیں تو اسے پتہ چلا کہ یہ گھوڑے سے مختلف سواری ہے۔ اس کی باگیں آگے بیٹھے ہوئے مہابت کے پاس ہوتی ہےں۔ نادر شاہ یہ کہتے ہوئے ہاتھی سے اتر آیا کہ وہ ایسی سواری پر سفر کرنے کو تیار نہیں، جس کی باگیں دوسرے کے ہاتھوں میں ہوں۔ حکمرانوں کو ہمیشہ جی حضوری قسم کے آئی جی درکار ہوتے ہیں۔ قاعدے، قانون، ضوابط دیکھ کر حکم کی تعمیل کرنے والا افسر حکمرانوں کا کبھی بھی من پسند نہیں رہا۔ ذوالفقار احمد چیمہ کی باگیں صرف قانون اور انصاف کے ہاتھ میں ہوتی ہیں۔ اس معاملہ میں وہ اتنے محتاط اور حساس ہیں کہ بعض اوقات ان کے قریبی دوست بھی جھنجلا اٹھتے ہیں۔ ان کے دوست اس لمحے محسوس کرتے ہیں ذوالفقار احمد چیمہ ان سے کتنی دور کھڑے ہیں۔ اخبارات کے کالم ملک معراج خالد اور غلام حیدر وائیں کے تذکروں سے بھرے پڑے ہیں۔ یہ دونوں درویش صفت سیاستدان ذرا’وکھری ٹائپ‘ کے آدمی ہیں۔ سیاستدانوں کے اسی قبیلے سے تعلق رکھنے والے گوجرانوالہ کے بیر سڑ عثمان ابراہیم بھی اس مرتبہ وفاقی وزیر مملکت بنائے گئے ہیں۔ سادہ زندگی گزارنے والے لنکنز ان سے فارغ التحصیل اس باریش بیر سٹر کی دیانتداری ان کے دوست دشمن سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ دیانتدار سیاستدانوں اور افسروں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ صرف ایماندار ہوتے ہیں۔ کرتے ورتے کچھ نہیں۔ اس عام معمول سے ہٹ کر عثمان ابراہیم ایک انتھک آدمی ہیں۔ شہرمیں ہر جگہ دکھائی دیتے رہتے ہیں۔گوجرانوالہ کے چار ممبران اسمبلی کے بارے میں عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ ٹھیکیداروں سے کمیشن نہیں لیتے۔ ان چار ناموں میں سے پہلے دو نام ممبران قومی اسمبلی کے ہیں۔ آخری دو نام ممبران صوبائی اسمبلی ہیں۔ نام بھی لکھے دیتا ہوں۔ پہلا نام بیرسٹر عثمان ابراہیم، دوسرا نام ریٹائرڈجسٹس افتخار احمد چیمہ، تیسرا نام رﺅف مغل، چوتھا نام پیپلزپارٹی کے سابق ممبر صوبائی اسمبلی ارقم خان کا ہے۔ ارقم خان اس مرتبہ الیکشن جیت نہیں سکے۔ کالم لمبا ہوتا جا رہا ہے۔ اب صرف چند باتیں عثمان ابراہیم کے بارے میں لکھوں گا۔ باقی پھر کبھی سہی، یارزندہ صحبت باقی۔ عثمان ابراہیم قبل ازیں صوبائی وزیر تعلیم بھی رہے ہیں۔ ان کا اس دور کا یہ کارنامہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ انہوں نے اقبال ہائی سکول کی اراضی کو قبضہ گروپ سے بچا لیا تھا۔ اقبال ہائی سکول جی ٹی روڈ پر واقع ہے۔ اب گورنمنٹ نے یہاں ایک خوبصورت بلڈنگ بھی بنا دی ہے ۔ نئے بجٹ میں غریبوں کیلئے ملک بھر میں آشیانہ سکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ ملک بھر میں پانچ سو گھروں پر مشتمل ایک ہزار ہاﺅسنگ کالونیاں بنائی جائیں گی۔ ان کےلئے تین ارب پچاس کروڑ روپے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ ہاﺅسنگ کی وزارت پاکستان کی اہم ترین وزارت ہے۔ آئندہ الیکشن میں ان ہاﺅسنگ کالونیوں کے دوررس اثرات ہونگے۔ ناکامی اور کامیابی دونوں صورتوں میں اثرات بڑے شدید ہونگے۔ اس وزارت کیلئے بیرسٹر عثمان ابراہیم کے انتخاب کو گوجرانوالہ کے سبھی حلقے میاں نوازشریف کا حسن انتخاب قرار دے رہے ہیں۔