لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کا مضحکہ کیوں؟

لوڈشیڈنگ کیخلاف احتجاج کا مضحکہ کیوں؟

لیجئے جناب بجلی و آبپاشی کے ترقیاتی ادارے واپڈا کی جانب سے آخرکار یہ مضحکہ خیز دعویٰ بھی منظرعام پر آ گیا ہے کہ بجلی کی زبردست قلت کے بحران اور اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو اندھیروں میں دھکیلنے کے اقدامات خصوصاً ”لوڈشیڈنگ“ کا واپڈا سے کوئی تعلق واسطہ نہیں لہٰذا اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں شائع اور نشر ہونے والے بجلی کے بحران سے تنگ آئے ہوئے لوگوں کے احتجاجی مظاہرے نہ صرف بیکار ایکسر سائز ہیں بلکہ بے معنی ہیں۔ گزشتہ روز ہی واپڈا کا اس بارے میں جو ”شاہکار اعلان“ سامنے آیا ہے اس میں بڑی ڈھٹائی سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ روز روز کی لوڈشیڈنگ ادارے کے نہ تو اختیار میں ہے اور نہ ہی اس ملک گیر لعنت یعنی ”لوڈشیڈنگ“ کی ذمہ داری ہی اس پر ہے۔ مطلب یہ ہُوا کہ واپڈا حکام سالہا سال سے اپنے ہموطنوں کو ضرورت کے مطابق بجلی کی سپلائی سے محروم رکھنے کی ذمہ داری سے کلیتاً پہلو تہی اختیار کر گئے ہیں ”ہائے اس زودِ پشیمان کا پشیمان ہونا!“ کیا واپڈا والے عوام الناس کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ وہ بجلی سے کئی کئی گھنٹے محرومی کے خلاف ملک بھر میں جو آواز بلند کر رہے ہیں وہ نہ صرف بیکار ہے بلکہ احمقانہ اور حقائق سے بے خبری کی وجہ سے ہے؟
توانائی بحران نے ملک و قوم کو ہر شعبے میں تباہی و بربادی کی جانب جس بُری طرح دھکیل رکھا ہے، اس پر بجائے شرمندگی کا اظہار کرنے اور لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لئے یہ ”نوید“ دی جا رہی ہے کہ اس بحران پر احتجاج کا رُخ واپڈا کی بجائے کسی اور جانب رکھیں۔ اس قسم کی باتیں تو اب نہ صرف زبان زد عام ہو چکی ہیں بلکہ ناخواندہ اور انتہائی پسماندہ طبقوں کے لوگ بھی کھلم کھلا اس رائے کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے جس سفاکی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اس کے نتیجے میں ہزاروں صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں اور زراعت کا اس وجہ سے بیڑا غرق ہو رہا ہے کہ دیہات میں ٹیوب ویلوں کیلئے اشد ضروری بجلی کا حصول ناممکن ہو چکا ہے اور پوری کی پوری معیشت زوال پذیر ہے۔ توانائی بحران نے ہر قسم کی صنعتی، معاشی، سماجی، تعلیمی اور معاشرتی سرگرمیوں کو معطل کر رکھا ہے اور کاروباری تعطل کے نتیجے میں لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے ہیں اور خصوصاً غربت کی انتہائی نچلی سطح کے انسانوں کیلئے تو حلال کی روٹی کمانا بھی مشکل ہو چکا ہے اور جو قومی ادارہ اس تمام تر بربادی کا ذمہ دار ہے وہ انتہائی گھٹیا انداز سے اپنا دامن بچا کر ذمہ داری دیگر محکموں، اداروں اور شعبوں پر ڈال رہا ہے۔ قارئین کرام ذرا اس قومی ادارے کے ترجمان کا وہ بیان ملاحظہ فرمائیے جس میں لوڈشیڈنگ پر تنقید کرنے والوں کا تمسخر اڑاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بجلی کی کئی کئی گھنٹے بندش کے خلاف احتجاج کرنے والے اتنی ”معمولی“ سی بات سے بھی باخبر ہیں کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ تو ادارے کے دائرہ کار ہی میں نہیں کیونکہ ”واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی“ کا دائرہ عمل محض پانی اور پن بجلی کے نئے پراجیکٹوں کی پلاننگ اور پہلے سے کام کرنے والے پاور پلانٹس کے نظم و نسق تک محدود ہے۔ انہی ذرائع کا آگے یہ ارشاد ہے کہ ”لوڈشیڈنگ سمیت دیگر تمام معاملات کا واپڈا سے کوئی سروکار نہیں لہٰذا اگر لوگ بجلی کی بندش سے پریشان ہیں تو اس میں اس ادارے کا کوئی قصور نہیں اور نہ ہی ہمارے خلاف احتجاجی مظاہروں کا کوئی فائدہ ہے۔“ قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ تو فرما لیا اس ادارے کی مضحکہ خیز منطق اور منسلک دعوے کو، بجائے اس بات کے، کہ واپڈا حکام گرمی اور حبس کے مارے اور بیروزگاری کے شکار لوگوں کی تالیفِ قلب کا سامان کریں، اُلٹا احتجاج کرنے والوں کی توہین و تضحیک پر اتر آئے ہیں۔
اعلان میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ سال 2007ءمیں پاور ونگ کی تشکیل نو اور پاور سیکٹر میں متعارف کرائی گئی اصلاحات کے نئے نظام کے نفاذ کے بعد ادارے کے فرائض کم و بیش آپریشنل کاموں تک محدود ہیں لہٰذا لوڈشیڈنگ کے حوالے سے ان پر نکتہ چینی بے معنی اور لاحاصل ہے۔ کاش واپڈا حکام سنجیدگی سے پن بجلی کے پلانٹس کی تنصیب و تعمیر پر توجہ دیتے اور پچھلی حکومت کی غفلت کی جانب توجہ دلا کر نئے ہائیڈل اور تھرمل یونٹ قائم کرتے۔ اشد ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ ادارہ نئی حکومت ہی کی جانب تعاون کا ہاتھ سنجیدگی کے ساتھ بڑھائے اور نہ صرف بجلی تیار کرنے کے نئے پراجیکٹوں کے بارے میں مفید معلومات اور ماہرانہ صلاحیتیں بروئے کار لائے بلکہ قومی سطح پر اتفاق رائے سے کالا باغ ڈیم جیسے میگا پراجیکٹ کی زبردست اہمیت اور افادیت کو اجاگر کریں۔

ای پیپر دی نیشن