مہنگائی کی لہر … ذمہ دار کون؟

میں نے تو موڈ بنایا ہوا ہے رمضان المبارک شروع ہونے سے قبل ہی شروع ہو جانے والی مہنگائی کی لہر پر بات کرنے کا کہ رحمتیں اور نیکیاں سمیٹنے کے اس بابرکت مہینے میں ہم پاکستانی نیکیوں کے ساتھ ساتھ ہر جائز و ناجائز چیز کو مال غنیمت سمجھ کر سمیٹنے کی کوشیشں شروع کر دیتے ہیں ٹھیک آنے والے ایک اعلان نے سارے موڈ کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہے۔
عمران خان نے حکومت کو ایک ماہ کا وقت دیا ہے کہ PTI کے مطالبات ایک ماہ کے اندر اگر منظور نہ کئے گئے تو پھر 14 اگست کو دس لاکھ لوگوں کو اسلام آباد میں اکھٹا کر کے دمادم مست قلندر کیا جائے گا دوسری طرف کینیڈین شہزادہ بھی عمران خان سے زیادہ مختلف پروگرام نہیں رکھتا۔ دونوں شہزادوں کو حکومت کی اچھی بری سرگرمیاں ہضم نہیں ہو رہی ہیں دونوں موجودہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں آثار بتاتے ہیں کہ حکومت گرانے کے ضمن میں عمران خان تو قائدوں اصولوں کا لحاظ رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر علامہ کی دلی خواہش ہے کہ ایک دن گزرنے سے پہلے ہی حکومت کا دھران تختہ کر دیا جائے۔ اپنے مشن کی تکمیل کے لئے وہ ملک کو افراتفری اور خون خرابے کی بھٹی میں جھونکنا چاہ رہے ہیں۔علامہ کی پراسرار سرگرمیاں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ علامہ موصوف حکومت سے نہیں شریف برادران سے ذاتی عداوت رکھتے ہیں ذاتی بغض ہے ان کے اندر اور یہ ذاتی دشمنی ہی علامہ کو چین نہیں لینے دے رہی جب کہ عمران خان ابھی پٹڑی سے اترے ہوئے نظر نہیں آ رہے البتہ وہ بھی اس دن پٹڑی سے اتر جائیں گے جب انہوں نے خود کو پورے کا پورا شیخ رشید کے حوالے کر دیا۔ شیخ رشید ماضی میں میرا دوست رہا ہے میں اس کی فطرت سے بخوبی آگاہ و واقف ہوں۔ اسے صرف شہرت چاہئے ٹی وی پروگرامز چاہئیں اور بس وہ بھی طاہر القادری کی طرح شریف برادران کے احسانات فراموش کر چکا ہے۔
بات شروع ہوئی تھی رمضان اور اس کے آغاز اور درمیان میں ہونے والی مہنگائی سے ساری عمر میں اس بات کی وجہ نہیں جان سکا کہ رمضان میں آخر کیا ہوتا ہے کہ عام آدمی کی ضرورت کی اشیاء کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں اور وہ آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں۔
 وہ دیکھتے ہیں کہ آڑھتی اور دوکاندار اگر قیمتیں تین چار گنا بڑھا کر آنے والی عید کی تیاریاں کرنے لگے تو وہ کیوں پیچھے رہیں۔ شہروں دیہاتوں اور قصبوں کی انتظامیہ کی آنکھیں بند کرنے کی دیر ہوتی ہے کہ آڑھتی و دکاندار آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔ یہ ستم نہیں تو کیا ہے شہروں میں دودھ 70 روپے اور دہی 80 روپے میں فروخت ہونے لگے۔ کیا ہماری گائے، بھینس سونے کے نوالے کھانے لگی ہیں یا دودھ دہی امپورٹ کیا جانے لگا ہے دالیں، آٹا، گھی اور چاول سفید پوش طبقہ کے بس سے باہر ہونے لگے ہیں بلاناغہ قیمتیں بڑھائی جانے لگی ہیں دودھ گائے بھینسوں کا ہوتا ہے یا مختلف پائوڈروں سے بنایا گیا ہوتا ہے یہ بھی ایک بہت بڑا سوال ہے میں یہ بات نہایت وثوق کے ساتھ کہنے کو تیار ہوں کہ بڑے شہروں میں 80 فیصد گوشت مردہ اور بیمار جانوروں کا سپلائی کیا جا رہا ہے دودھ کے نام پر زہر بک رہا ہے اور وہ بھی منہ مانگے داموں پر شرم آنی چاہئیے ذمہ داروں کو کہ ان کی رعایا خوراک کے نام پر زہر کھانے پر مجبور ہے شہباز شریف بلاناغہ قیمتیں کنٹرول کرنے کا درس دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر ہماری مارکیٹوں اور بازاروں کی قیمتیں بے لگام ہو چکی ہیں ۔حکومت رمضان پیکج دیتی ہے مگر ایک خاص مافیا یوٹیلٹی سٹورز پر سے سستی ملنے والی اشیاء غائب کروا دیتا ہے۔یہ سب کیا دھرا شہروں اور دیہاتوں کی انتظامی مشینری کا ہے جو شہباز شریف کے احکامات کو مسلسل ہوا میں اڑا رہی ہے۔میرا رہائشی علاقہ سبزہ زار وہ علاقہ ہے جہاں کے دونوں ممبران اسمبلی ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں یہاں کی پرائس کنٹرول کمیٹی بھی انہی کے پاس رہی ہے گزشتہ دنوں ایک سر پھرے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نے علاقے کا دورہ کیا مہنگی اشیاء فروخت کرنے پر دوکانداروں کو جرمانے کرنا شروع کئے MNA کا ایک عزیز جو پرائس کنٹرول کمیٹی کا چیئرمین بھی رہ چکا ہوا تھا آن ٹپکا اور مجسٹریٹ سے الجھ پڑا۔ مجسٹریٹ نے اسے پولیس کے حوالے کر دیا پھر کیا تھا ن لیگ کے جوشیلوں نے مجسٹریٹ کو دن میں تارے دکھا دیئے۔ دراصل سابقہ چیئرمین پرائس کنٹرول کمیٹی دوکانداروں اور ریڑھی بانوں سے ماہانہ لیتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے میں نے اپنے علاقے کے پرائس کنٹرول مجسٹریٹ شبیر ڈوگر کی توجہ دوکانداروں کی لوٹ مار کی طرف مبذول کروائی ۔ وہ دن اور آج کا دن اس مجسٹریٹ نے میرا فون سننا چھوڑ دیا ہے۔ میں نے من مانی قیمتوں کی یہی شکایت اپنے علاقے کے TMA(اے سی) علی شہزاد سے کی تو انہوں نے وعدہ تو کیا کہ ایکشن لیں گے مگر اس کے بعد انتظامی مشینری کو سانپ سونگھ گیا ہے اور میرے علاقے کو ناجائز منافع خوروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہوا ہے۔

ای پیپر دی نیشن