پشاور (بی بی سی+ نیٹ نیوز) شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضربِ عضب بظاہر اس حد تک تو کامیاب ہے کہ ایسے علاقے کو انتہا پسند تنظیموں سے صاف کیا جا رہا ہے جہاں انہوں نے کئی سال سے اپنی ’امارت‘ قائم کر رکھی تھی تاہم اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آپریشن کا مقصد محض شدت پسندوں کو شمالی وزیرستان سے بیدخل کرنا تھا یا ان کا مکمل طور پر خاتمہ کرنا حکمت عملی کا حصہ تھا؟ یہ علاقہ اس وقت عسکریت پسندوں کے مضبوط مرکز میں تبدیل ہوا جب فوج نے مختلف قبائلی علاقوں میں عسکری گروہوں کے خلاف باضابطہ طور پر آپریشن کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں فوج نے موثر کارروائیاں کیں جس کے نتیجے میں چند اہم کمانڈر یا تو مارے گئے یا جان بچا کر وزیرستان فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ اس طرح باجوڑ اور مہمند ایجنسیوں میں بھی بیشتر جنگجوؤں نے بھاگ کر شمالی وزیرستان کا رخ کیا۔ یہ علاقہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب شمالی وزیرستان سے متصل قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کیخلاف 2009ء میں آپریشن راہِ نجات کے نام سے بڑی کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ اس آپریشن سے نہ صرف ٹی ٹی پی کی قیادت اور اہم کمانڈروں نے بھاگ کر شمالی وزیرستان میں پناہ لی بلکہ ان تنظیموں کے سائے تلے کام کرنیوالے غیر ملکی جنگجوؤں نے بھی شمالی وزیرستان میں مستقل طور پر ڈیرے ڈال لئے تھے۔ بی بی سی کے مطابق ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ آپریشن ضربِ عضب شروع ہونے سے قبل تمام ملکی اور غیر ملکی عسکریت پسند علاقہ چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب منتقل ہو چکے تھے۔ شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنیوالے افراد کہتے ہیں کہ علاقے سے غیر ملکیوں کا انخلا اس وقت شروع ہوا جب رواں برس مئی میں انکے ٹھکانوں کو فضائی حملوں میں نشانہ بنایا گیا۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ جیٹ طیاروں کے حملوں میں غیر ملکیوں کو خاصا جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ بی بی سی نے تجزیہ کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان وہ واحد ایسا علاقہ تھا جہاں حکومت پاکستان کی کوئی عمل داری نہیں تھی۔ جہاں شدت پسند بیٹھ کر ملک کے اندر اور باہر حملے کرانے کے منصوبے بنایا کرتے تھے۔ حکومت کم از کم اس حد تک کامیاب نظر آتی ہے کہ فاٹا میں شدت پسندوں کو ایک بڑے مرکز سے محروم کر دیا گیا ہے، تاہم یہ آنیوالا وقت ہی ثابت کریگا کہ عسکریت پسند یہاں کا دوبارہ رخ کرتے ہیں یا نہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس آپریشن میں صرف ان شدت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو پاکستان میں حملوں میں ملوث تھے یا ان سے ملک کو مستقبل میں کوئی خطرہ لاحق تھا، لیکن جو پاکستان کے حامی تھے انہیں بظاہر نکلنے کا محفوظ راستہ دیدیا گیا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ عرصہ سے وزیرستان میں چین سے تعلق رکھنے والے اویغور نسل کے شدت پسند بھی سرگرم تھے جن پر چین کے اندر حملوں کا الزام لگتا رہا ہے۔ چین کی جانب سے پاکستان پر ان شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کیلئے دباؤ مسلسل بڑھتا رہا ہے۔ حکومت اور فوج کی جانب سے زور دیا جا رہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کا مرکزی ہدف غیرملکی عسکریت پسند ہیں۔ فوج کی جانب سے اب تک ہلاکتوں کے حوالے سے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ان میں بھی مرنیوالے بیشتر غیرملکی بتائے گئے ہیں۔ دوسری جانب غیر قانونی شدت پسند تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے فوجی آپریشن کے حوالے سے ابھی تک مکمل خاموشی اختیار کی گئی ہے۔ تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کی جانب سے تاحال ذرائع ابلاغ کو کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا جس سے بظاہر لگتا ہے کہ یا تو طالبان مشکل کا شکار نظر آتے ہیں اور کسی دوسرے محفوظ ٹھکانے کی تلاش میں ہیں یا کسی حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کی ہے۔
بی بی سی