دستانے کے نیچے اور ہے دستانہ

Jul 01, 2015

ظفر علی راجا

مرحوم مصطفی زیدی نے کیا خوب شعر کہا تھا۔
میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں
تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے
جب سے رینجرز نے کراچی میں قبضہ مافیا، بھتہ مافیا، اراضی مافیا، افسری مافیا کا قافیہ تنگ کیا ہے۔ ہمیں یہ مشہور شعر بار بار یاد آ رہا ہے۔ رینجرز کی ’’دستانہ کھینچ‘‘ کارروائی کے نتیجے میں کچھ ایسے ہاتھ بے نقاب ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں جن کے سیاسی دستانوں پر دست درازی کی جرات کسی کو کبھی نہیں ہوئی تھی۔ چند روز قبل رینجرز والوں نے گرفتاری کے بعد ایک بڑے افسر کا چمکدار اختیاراتی دستانے میں چھپا ہوا کالا زردار ہاتھ کھینچ کر نکالا تو دستانے کے ساتھ ان کی دستارِ فضیلت بھی رینجرز کے قدموں میں آن گری۔ دستانے اور دستار کو تحقیقی جھاڑو سے جھاڑا گیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ اعلیٰ حضرت کے زیرسرپرستی 230 بلیئن روپے کی ناجائز کمائی سالانہ حاصل کی جا رہی ہے۔ مزید خبر ملی کہ اس کالی دھن کاری کا ستر فیصدی بلاول ہاؤس چلا جاتا ہے۔ دس فیصد دیگر افسران، سیاسی رہنماؤں جبکہ دس فیصدی بھتہ مافیا لے جاتا ہے اور گرفتار افسر کے دست کار ساز میں صرف دس فیصدی کالا دھن رہ جاتا ہے۔ اس تحقیق کے سامنے آتے ہی زرداری صاحب نے جو ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کو بچانے کے لیے مفاہمتی دستانے پہنے رکھتے ہیں۔ یہ دستانے اتارے اور افواج پاکستان کے خلاف ایک دست دراز بیان جاری کر دیا۔ اس بیان کی بے اثری پر ان کی پارٹی کے چند سندھی لیڈروں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور یہ خبریں بھی آئیں کہ اس جماعت کے سات صوبائی وزرائ، سندھ اسمبلی کے بیس ارکان، اور ایک سو سے زیادہ افسران ملک سے فرار ہونے کے لیے ہاتھ پاؤں مارنے لگے ہیں۔ زرداری کی ہمشیرہ امریکہ جا چکی ہیں۔ زرداری اور بلاول اچانک دوبئی چلے گئے، ایک دن بعد بلاول واپس آ گیا۔ ایک اعلیٰ سیاسی شخصیت کے فرنٹ مین نے انکشاف کیا ہے کہ اعلیٰ شخصیت دوبئی میں دو اعلیٰ ہوٹل جبکہ ملائیشیا میں کروڑوں روپے کی اعلیٰ ترین جائیداد خرید چکی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے حقائق جان کر پیپلز پارٹی کے جیالے سینے پر دو ہتھڑ مار کر اپنے زردار قائد کو یہ کہہ کر داد دیتے ہوں گے۔
کیسے کیسے ہاتھ دکھلاتے ہیں اپنے رہنما
پیپلز پارٹی کے ساتھ اقتداری شراکت کا ریکارڈ بنانے والی جماعت ایم کیو ایم سے متعلق بھی انکشافات سن کر پاکستان بھر کے لوگ ہاتھ ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ متحدہ کے دو سینئر رہنماؤں نے برطانیہ میں تحقیقات کے دوران تسلیم کیا ہے کہ ایم کیو ایم کو بھارت لاکھوں ڈالر سالانہ کے حساب سے مالی امداد دیتا رہا ہے۔ ایسے بنک کھاتے کا بھی سراغ ملا ہے جس میں تین بھارتی لوگوں نے متحدہ کے اکاؤنٹ میں دس لاکھ پاؤنڈ رقم جمع کروائی تھی۔ یہ راز بھی کھلا ہے کہ ایم کیو ایم کے کارکن بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے دہشت گردی کی تربیت حاصل کرتے رہے ہیں۔ عسکری تربیت حاصل کرنے والوں کی ایک فہرست بھی بے نقاب ہوئی ہے۔ جس میں اجمل پہاڑی، ارشد چٹا، جاوید لنگڑا، شفیق کالیا، امتیاز گڈو، شاکر چھوٹا سمیت 55 ارکان کے نام شامل ہیں۔ لنڈن میں ایم کیو ایم کے ایک نامور لیڈر کے گھر سے ایسی فہرست بھی برآمد ہوئی ہے جس میں بھارتی ہتھیاروں بموں وغیرہ کی تفصیل اور نرخ درج ہیں۔ برطانوی چھاپہ مار ٹیم نے ایک چھاپے کے دوران ایسی دستاویزات بھی قبضے میں لی ہیں جن میں بھارت سے حاصل کئے گئے اسلحہ اور بارود کی تفصیل بھی موجود ہے جسے کراچی میں دہشت گردی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی چھاپے میں پانچ لاکھ پاؤنڈ مالیتی کرنسی بھی برآمد کی گئی تھی۔ برطانیہ کے دو ججوں نے سیاسی پناہ سے متعلق اپنے فیصلوں میں لکھا ہے کہ اطلاعات کے مطابق ایم کیو ایم والوں نے ان دو سو پولیس افسروں کو قتل کر دیا جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فعال کردار ادا کر رہے تھے۔ ایم کیو ایم والے ان انکشافات کا منہ زبانی انکار کر رہے ہیں۔
ابھی ہم اتنا ہی لکھ پائے تھے کہ اچانک ہمارے موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے ہیلو کہا تو یہ جان کر جان میں جان آئی کہ دوسری طرف ہمارے دل دے جانی منفرد لہجے کے شاعر اسلم کولسری محو کلام تھے۔ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم ان سیاستدانوں پر کالم لکھ رہے تھے جو اپنی انگلیوں اور انگوٹھوں کی لکیریں سیاسی دستانوں میں چھپا کر دونوں ہاتھوں سے کالا دھن سمیٹ رہے ہیں اور کراچی کی بدامنی کے ذمہ دار ہیں۔ رینجر کی کارروائی کے پس منظر میں ایک شعر نازل ہوا ہے جو کچھ اس طرح ہے۔
نقش جائیں گے سارے پہچانے
جونہی اترے سیاسی دستانے
اسلم کولسری بولے کہ انگلیوں اور انگوٹھوں کے نقش کبھی پہچانے نہیں جائیں گے کیونکہ افسر شاہی، ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے دھن کار مفادات مشترکہ ہیں۔ پھر انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہا۔ مجھ پر بھی ایک شعر نازل ہو گیا ہے۔ سن لیجئے۔
مجرم کیسے کوئی جائے گا پہچانا
دستانے کے نیچے اور ہے دستانا
اس کے ساتھ ہی انہوں نے فون بند کر دیا اور ہمارا کالم ادھورا رہ گیا۔

مزیدخبریں