آج مملکت ِ خداداد ِ پاکستان کو حقیقی معنوں میں سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ اگرچہ مسائل کے انبار ہر دور ہی میں رہے ہیں لیکن9/11 کے بعد ان میں دہشتگردی کا اضافہ ہو گیا اور یہ سب سے بڑے مسئلے کے طور پر سامنے آگئی۔ اسکے سدباب کیلئے افواجِ پاکستان نے بھرپور کوششیں کیں اور اب ان میں ایک نمایاں بہتری نظر آ رہی ہے لیکن اسکے باوجود حکومت کے اندازِ حکمرانی، توانائی بحران، لاقانونیت، کرپشن، منی لانڈرنگ نے ایک انتہائی خطرناک صورتحال اختیار کرلی ہے۔ ماضی قریب میں خطے میں ہونیوالی غیرمعمولی تبدیلیوں اور بھارت کی پاکستان دشمن سرگرمیوں سے ملکی سالمیت کیلئے بھی بڑے خطرات کھڑے ہو گئے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا بہتر طرزِ حکمرانی، توانائی بحران سے نمٹنے کی کوششیں، بدترین کرپشن کا خاتمہ، قانون کی حکمرانی، منی لانڈرنگ جیسے معاملات موجودہ حکمرانوں کی ترجیحات میں شامل نہیں ہیں ۔ اگر کسی بات پر زور ہے تو وہ یہ کہ کس طرح اپنے اقتدارکو طوالت دی جائے اور ہر جائز و ناجائز ذرائع سے دولت اکٹھی کی جائے۔ چنانچہ حال یہ ہے کہ ملک کی چالیس فیصد سے زیادہ آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے یا یوں کہیے کہ انکو کھانا اور چھت نصیب نہیں۔ ملک کی آدھی آبادی تعلیم سے محروم ہے۔ عوام میں شدید عدم تحفظ ہے اور جرائم کی رفتار میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔توانائی کا بحران بدترین ہے جس نے عام آدمی سے لیکر صنعتکاروں اور کاروباری لوگوں کیلئے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ حکمرانوں کی ترجیحات عوام کی ضروریات کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن ایک ایسے ناسور کی شکل اختیار کر گئی ہے جس نے حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور اس نے حکومت کے ہر محکمے کو مفلوج کر دیا ہے۔ کرپشن کا یہ عنصر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر جگہ اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے۔ عام آدمی سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں اور رشوت ستانیوںسے تنگ ہے۔ جبکہ اعلیٰ سطح پررشوت، کک بیکس، بنکوں سے قرضہ معاوف کروانا اور بڑے بڑے سودوں میں ہونے والے گھپلوں نے معیشت کوشدید دھچکا پہنچایا ہے۔اگرچہ کرپشن کے سدباب کیلئے ایف آئی اے، نیب اور انٹی کرپشن جیسے ادارے موجود ہیں لیکن ان کو مختلف طریقوں سے بے اثر بنا دیا گیا ہے اور ان کے اہلکار اکثر اوقات یا تو مجبور ہو کر حکمرانوں کے اشاروں پر ناچتے ہیں یا بدعنوانیوں میں ان کے ساتھی بن جاتے ہیں۔
چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کیلئے بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائے جس کا آغاز بھی ہو چکا ہے لیکن بدعنوان اشرافیہ اسے ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ ہر بدعنوان شخص کو اعلیٰ سطح پر سرپرستی حاصل ہے۔ ایسے میں دیکھا جائے تو ملک میں اس حوالے سے ایک ایسی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس کا فی الحال کوئی انجام دکھائی نہیں دیتا۔ ملک میں اس وقت دہشت گردی کے خلاف بھر پور آپریشن جاری ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری افواج نے شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اگر آج سے چند سال پہلے کی صورتحال سے موازنہ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں نمایاں کمی ہوئی ۔حکمرانوں کا یہ طرزِ عمل افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر پاکستانی کیلئے دکھ اور رنج کا باعث ہے۔ یہ کوششیں اپنی پوری شدومد کے ساتھ جاری ہیں۔ ان تمام معاملات پر پانامہ لیکس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے جن سے حکمرانوں کی بیرون ملک جائیدادوں کا انکشاف ہو گیا ہے۔ اس وقت ان لیکس کی تحقیقات کیلئے قائم کمیشن کے TOR زیر بحث ہیں اور حکومت اس معاملے کو لٹکانے کی بھرپور کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت وزیراعظم حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھو چکے ہیں انہیں حکومتی عہدے سے الگ ہو کر اس معاملے کی شفاف تحقیقات ہونے دینا چاہئیں۔
ان حالات میں سول حکومت سے استدعا ہے کہ ملک میں شفافیت، قانون کی عملداری، دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کی جانے والی کوششوں میں افواجِ پاکستان کا بھرپور ساتھ دے۔ سفارتکاری کے عمل کو نہایت تیزی سے شروع کیا جائے اور دوستوں اور پڑوسی ممالک کو اعتماد میں لیکر مودی کی پالیسیوں کا توڑ کیا جائے۔ ورنہ حکومت کی موجودہ اندازِ حکمرانی، ملکی مسائل اور کرپشن سے بے اعتنائی اداروں کے درمیان شدید غلط فہمیوں کے ازالے کی کوششوں سے گریز اور علاقائی صورتحال سے پہلو تہی کسی ایسی صورتحال کو جنم نہ دے دے جس کے نتیجے میں ٹکرائو بڑھ جائے اور کوئی ماورائے آئین اقدام ہو جائے۔ حکمران یاد رکھیں کہ عوام صورتحال کے ہر پہلو سے باخبر ہیں اور صحیح اور غلط کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد وہ کسی بھی ’’سیاسی شہید‘‘ کی ’’مظلومیت‘‘ کا اعتبارنہیں کرینگے۔
سنگین ملکی مسائل اور حکمرانوں کے رویے
Jul 01, 2016