ایک لمبی جنگ لڑتے لڑتے اللہ کے فضل و کرم سے آج ہم اس مقام پر آچکے ہیں جہاں سے امن اور کامیابی کی منزل زیادہ دور نہیں۔گویا خطے میں سڑیٹیجک پوزیشن حاصل کرنے کی عالمی دوڑ میں ہم اپنے جائز مقام پر ہیں۔ ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کی پچھلے مہینوں میں بھاگ دوڑ اور پروپیگنڈے کی صورتحال کا جو خاکہ میں نے اپنے 10جون کے کالم ’’دوڑ مودی دوڑ‘‘ میں پیش کیا تھا ،اس میں فرسٹریشن کی شدّت کافی بڑھ گئی ہے۔اس ماہ زیادہ شور شرابہ بھارت کی نیو کلئیر سپلائرز گروپ میں شمولیت کیلئے سعی اور ہمارااُسے، ہمیں شامل کئے بغیر ،روکنے کا تھاجو عالمی قوانین کے عین مطابق تھا۔غالباً امریکہ بھی مودی کو لالی پوپ دے رہا تھا کیونکہ اسے معلوم تھا کہ چین ترکی اور دوسرے کئی متوازن سوچ والے ملک بندرکے ہاتھ میں استرا پکڑانے کو روک لیں گے۔بہر حال ہندوستان کو شمولیت سے انکار کے ساتھ ہی وہاں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور مودی حکومت پر تنقیدشروع ہو گئی۔بھارت میں ایسی تنقید کو نرم کرنے کا بہترین حل ہمیشہ سے پاکستان کے خلاف الزامات کی صورت میں نظر آیا کرتا ہے لہٰذا ہمارے خلاف مجاہدین کو پالنے اور کشمیر میں امن خراب کروانے کا زہریلا پروپیگینڈا ازسر نوبھڑ کا دیا گیا۔
بھارتیوں کے ان جذبات کا صحیح ادراک مجھے 27جون کی شام کو’’ انڈیا نیوز‘‘کے ساتھ ایک لائیو ٹی وی پروگرام میں ہوا۔اس پروگرام میں پاکستان کی طرف سے میں اور ڈاکٹر سعید الہٰی چیئر مین پاکستان ہلال احمر شامل تھے۔موضوع دو دن پہلے ہونیوالے سرینگر سے 15کلومیٹر دور پام پورکے مقام پر انڈین CRPFکی گاڑی پر کشمیری مجاہدین کی گھات تھا ۔جسکے نتیجے میں انکے13اہلکار ہلاک اور 20زخمی ہوئے جبکہ مقابلے میں دو مجاہدین بھی شہید ہوئے تھے۔ وقوعہ کے روزہی انڈین میڈیا نے فوراًپاکستان پر الزام لگا کر زہر اگلنا شروع کردیاحالانکہ انکے ایک وزیر اور فورس کمانڈرز کے مطابق لوکل لشکر طیبہ اسکی ذمہ داری قبول کرچکی تھی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ سرینگر جانیوالی نیشنل ہائی وے 44جسپر یہ حملہ ہوا،اسکی سکیورٹی کی ذمہ داری چھ سال سے پولیس کے پاس تھی مگر 7جون کو سرینگر کے کور کمانڈر نے کچھ اندرونی خطرات کے پیش نظر ایک کانفرنس کر کے ذمہ داری پھر سے آرمی کو دے دی تھی۔یہ ایک بڑی تبدیلی علاقے میں سلگتے حالات کی نشاندہی کرتی ہے۔ گویا وقوعہ تک تو سب کچھ لوکل تھا مگر دو دن میں بننے والی نئی کہانی بھی سن لیجئے۔
انکے مطابق ’’ اس اپریشن کا انچارج موضع وسّو ضلع قاضی گھنڈ کشمیر کا رہائشی روح الامین ڈار ہے جو علاقے میں لشکر طیبہ کا انچارج ہے اور اس وقوعہ کے بعد سے روپوش ہے۔ جون کے وسط میں اسکے پاس چار فدائین سرحد پار (پاکستان)سے آئے۔ جو اس نے ایک اور گروپ انچارج ماجدزرگر کو بھجوا دئیے ۔زرگر گروپ کلگام اورشوپیان کے اضلاع میں پھیلا ہوا ہے مگر ایکشن میں وہ شامل تھے۔چارمیں سے دو فدائین مارے گئے اور دو واپس ڈار کے پاس پہنچ گئے ہیں جس کا کلوزلنک پاکستان میں ہے۔لہٰذا پاکستان ہی اس واقعے کا ذمہ دار ہے‘‘۔کہانی بناتے وقت یہ خیال بھی نہ رکھا کہ کورکمانڈر سرینگر نے 7جون کو چھ سال بعد دوبارہ اس سڑک کی ذمہ داری آرمی کو کیوں سونپی اورپھر جب انکوائری 28جون کو شروع ہونی تھی تو تفصیلی الزامات پہلے ہی کیسے لگ گئے۔ہو سکتا ہے سانحہ طور خم کروانے کا تنکا بھی ان کی داڑھی میں موجود ہو۔
انکو تو مناسب جواب دے دئیے گئے مگر ہمارے لئے صورتحال اسوقت خاصی پریشان کن ہوگئی جب سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے بیان کی ریکارڈنگ ہمیں دوبار سنائی گئی۔اس میںمحترمہ کہہ رہی تھیں کہ ہم بیوقوف تھے جو امریکہ کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے اور ہم نے مجاہدین تیار کئے جو بعد میں امن برباد کئے ہوئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پاکستان کو دہشتگردوں کی نرسری کہنے والے، اسے اپنے مؤقف کی سپورٹ میں ایک بڑے ثبوت کے طور پرپیش کر رہے تھے۔بہر حال انڈین کے ہر سانس سے بلاشبہ فرسٹریشن امڈ رہی تھی۔
سٹریٹیجک پوزیشن گیم میں انڈیا کو ایک اور چوٹ بھی پڑی ہے اور وہ مئی میں روسی صدر پیوٹن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات میں عالمی سٹریٹیجک شراکت داری مستحکم کرنے پر اتفاق ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان 30معاہدے سائن ہوئے جن میں معیشت ، تجارت، انفراسٹرکچر، ٹیکنالوجی، توانائی، میڈیا، کھیل کے شعبے شامل ہیں۔اسکے علاوہ خطے میں دہشت گردی کیخلاف جنگ میں تعاون پر مشاورت اور 50ارب ڈالر کے مزید 58معاہدوں پر مذاکرات جاری ہیں۔ ہمیں ان معاہدوں سے بالواسطہ فائدہ ہوگا کیونکہ ہماری جغرافیائی پوزیشن اور چین سے الحاق کا ان پر گہرا اثر ہوگا۔ آج بحیرئہ عرب کے ساحلوں پر اس طرح کی گروپنگ کوئی معمولی بات نہیں۔مستقبل قریب میں امریکہ کو ہمارے ساتھ بہتر تعاون کی پالیسی اختیار کرنا ہوگی جبکہ ایران،ترکی، سعودی عرب، گلف اور افغانستان وغیرہ پہلے ہی اس طرف مائل ہیں۔
ہمیں تنہا کردینے کا ڈھول پیٹنے والے انڈیا کو اب اپنی تنہائی صاف نظر آرہی ہے۔لہٰذا وہ فرسٹریشن میں کوئی حرکت بھی کرسکتا ہے۔ ہمیں پہلے سے زیادہ مستعد اور مدّبرانہ سوچ کے ساتھ حالات کو کنٹرول میں رکھنا ہے۔تین نقاط پر فوری عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ تحفظ عامہ۔ ہمیں اس طرف ازسر نو توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ ہماری سوسائٹی میں وہ دراڑیں موجود ہیں جنھیں استعمال کرنے کا گُر بھی دنیا کو آتا ہے۔میں بارہا عرض کر چکا ہوں کہ جب تک پبلک کی شمولیت نہیں ہوتی دہشتگردی کی آ گ کہیں نہ کہیں سلگتی رہے گی۔ہمیں کون روکتا ہے کہ ہم کونسل /وارڈ کی سطح پر عوامی نمائندوں کے ذریعے عوام کو اپنی پولیس کے پیچھے صف آرا کرلیں یا اگر پارٹیوں کے قائدین اپنے لوگوں ،خصوصاً نوجوانوں کو کال دیں کہ اپنی گلیاں محفوظ کرنے کیلئے منظم ہوجائیں؟2۔ قومی پالیسی اور Narrative۔ آج کل ایک تو واقعات بہت تیزی سے رونما ہوتے ہیں دوسرا کسی واقعے پر بھی قومی Narrative بروقت نہیں آتا۔جسکی وجہ سے لوگ افواہوں کا سہارا لیکر کنفیوز اور پریشان رہنے لگ جاتے ہیں۔اسکا بہترین حل پارلیمنٹ میں عوامی نمائندوں کی حاضری اور وہاں پر تمام قومی امور پر بحث ہے جس سے قومی یکجہتی کی فضا بھی بہتر ہو جائیگی۔3۔ جارحانہ ڈپلومیسی۔ ہم دلدلوں سے نکل کر پکی زمین پر تو آگئے ہیں مگر اگلی منزلیںکیسے طے کرنی ہیں اس کیلئے بصیرت پر مبنی خارجہ پالیسی اور جارحانہ ڈپلومیسی کی ضرورت ہے۔
خطے میں بارہ سال کی جنگ میں بھارت عالمی ایجنسیوں کی بھرپور امداد جیت کر بھی ہار رہا ہے جبکہ ہم ستر ہزار زندگیاں ہارکر بھی جیت رہے ہیں۔جو کسی طرح بھی ان کیلئے قابل برداشت نہیں ہوسکتا۔ ان کے پاس Mischief Capacityاب بھی ہے جسکا منہ توڑ جواب دینے کیلئے ہمیں ہر دم تیار رہنا ہوگا۔
’’بھارتی فرسٹریشن کے تناظر میں‘‘
Jul 01, 2016