اسلام آباد (آن لائن+بی بی سی) عدالت عظمیٰ نے ماڈل ایان علی کی جانب سے وزارت داخلہ کیخلاف دائر توہین عدالت کی درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے سیکرٹری داخلہ ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ چیئرمین ایف بی آر، ڈی جی امیگریشن کراچی ائیرپورٹ کو نوٹسز جاری کردیئے اور کسٹم انسپکٹر اعجاز محمود چوہدری کی اہلیہ کی درخواست پر تفتیشی افسر کو ریکارڈ سمیت طلب کر کے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے مقدمہ کی سماعت عید کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کر دی۔ ایان علی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ وزارت داخلہ نے 15جون کو نام نکالا اور 15کو ہی دوبارہ ڈال دیا ،وزارت داخلہ کے حکام مسلسل عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کر رہے ہیں ریاستی حکام مسلسل عدلیہ کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں ہیں، سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کی درخواست پر تحمل کا مظاہرہ مناسب نہیں، یہ 22کروڑ عوام کی عزت اور عدالت کے وقار کا سوال ہے، حکام عدالتی فیصلوں کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں ، توہین عدالت کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہ برتی جائے، اس پر حکومتی وکیل نے کہا ایان علی کی سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل قابل سماعت نہیں، یہ عدالت کا استحقاق ہے کہ وہ توہین عدالت کی کارروائی کرے یا نہ کرے اس پر جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ توہین عدالت ثابت نہ ہو تو درخواست خارج ہو جاتی ہے، توہین عدالت ثابت ہو تو ذمہ داران کو سزا دی جاتی ہے، الگ بات ہے غیر مشروط معافی پر عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، اس پر سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ پرویز مشرف بیرون ملک جاسکتے ہیں مگر ایان علی نہیں۔ صرف 23 سال کی عمر میں ایان علی کو جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں، اس پر جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیئے کہ آخر وزارت داخلہ نرم ہداف کے پیچھے کیوں پڑی ہے جس پر ایان علی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایان علی کی ماں مر رہی ہے لیکن وہ بیرون ملک نہیں جا سکتی، وزارت داخلہ والے کسی کا حکم نہیں مانتے اس پر جسٹس شیخ عظمت سعیدنے ریمارکس دئیے کہ ہم نے حکم دیا تو دیکھیں گے کیسے نہیں مانتے۔ وزارت داخلہ کے پاس ایان علی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے مزید کتنے جواز ہیں۔ کسٹم افسر اعجاز محمود چوہدری کی بیوہ صائمہ اعجاز کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ماڈل ایان علی کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے پانچ لاکھ چھ ہزار آٹھ سو ڈالر دبئی سمگلنگ کی کوشش میں گرفتار کیا گیا، ایان علی سے برآمد ہونے والی رقم مقتول کسٹمز انسپکٹر اعجاز محمو چوہدری کی تحویل میں تھی۔ ایان علی کو قتل کی ایف آئی آر میں نامزد کرنے کے لیے مختلف فورم سے رجوع کیا گیا ہے اس پر جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایک سال تک کہاں رہے، ہمارے پاس مقدمہ 302 نہیں ای سی ایل کا معاملہ ہے، جسٹس طارق مسعود نے مقتول کی بیوہ کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا مجسٹریٹ نے قتل کیس میں ایان علی کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے؟ اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتار ی جاری نہیں کیے گئے وارث خان تھانے میں ایف آئی آر درج ہے اور بیان بھی قلمبند کرایا گیا ہے لیکن پولیس نے ملزمہ کی گرفتاری کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے میڈیا کہ ذریعے پتہ لگا ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ عدالت عظمیٰ میںزیر سماعت ہے، درخواست گزار اس معاملے کا اہم فریق ہے اسے سنے بغیر ایان علی کا نام ای سی ایل سے نہ نکالا جائے، عدالت عظمیٰ نے حکومتی وکیل اور ایان علی کے وکیل کو سننے کے بعد تین اپیلوں پر مختلف افسروں کو نوٹسز جاری کر دیئے۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ حکومت آسان اہداف کو نشانہ بنانا چھوڑ دے۔ حکومت بتائے کہ اس نے اب تک سنگین جرائم میں ملوث کتنے افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے ہیں۔ ایان علی کے وکیل نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کو اپنے احکامات پر عمل درآمد کروانا آتا ہے اور ایسا نہ ہونے کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف بلا تاخیر کارروائی بھی کی جاسکتی ہے۔ ایڈشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایان علی کا ای سی ایل میں دوبارہ نام مقتول کسٹم افسر کی بیوہ کی درخواست پر پنجاب حکومت کی سفارش پر ڈالا گیا ہے۔ اْنھوں نے کہا کہ مقتول کی بیوہ کا موقف ہے کہ چونکہ اْن کے شوہر کا نام ملزمہ آیان علی کے خلاف غیر ملکی کرنسی بیرون ملک سمگل کرنے کے مقدمے میں سرکاری گواہوں میں شامل تھا اس لیے ایان علی کے ان کے شوہر کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا قتل کے مقدمات میں جتنے بھی نامزد ملزم ہیں ان کے نام ای سی ایل میں شامل کیے گئے ہیں؟ اس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چند وفاقی وزراء کے نام ماڈل ٹاؤن میں پولیس کی فائرنگ سے افراد کے قتل کے مقدمے میں شامل ہیں لیکن اْن کے نام تو ای سی ایل میں شامل نہیں کیے گئے۔ بینچ میں موجود جسٹس دوست محمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ حکومت آسان اہداف کو نشانہ بنانا چھوڑ دے اور سنگین جرائم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائیوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے۔ سپریم کورٹ نے ماڈل ایان علی کا نام دوبارہ ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے سے متعلق سیکرٹری داخلہ کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر اْنھیں نوٹس جاری کردیا ہے جبکہ سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کو حکم دیا ہے کہ اْن کے پاس ایان علی کی جتنی بھی درخواستیں ہیں اْنھیں دو ہفتوں میں نمٹا دیا جائے۔
ایان علی کیس: حکومت آسان اہداف کو نشانہ بنانا چھوڑ دے: سپریم کورٹ ‘وزارت داخلہ کیخلاف توہین عدالت درخواست قابل سماعت قرار
Jul 01, 2016