پشاور (صباح نیوز+ آئی این پی+ نیٹ نیوز) پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے افغان اخبار افغانستان ٹائمز کو انٹرویو میں کہا ہے خیبر پی کے افغانوں کا ہے اور افغان مہاجرین وہاں جب تک چاہیں بلا خوف و خطر رہ سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا افغانوں کو دوسرے صوبوں میں پریشان کیا جائے تو وہ خیبر پی کے آ کر آرام سے رہ سکتے ہیں، خیبر پی کے میں کوئی ان سے پناہ گزین کارڈ نہیں مانگے گا کیونکہ خیبر پی کے افغانوں کا ہے۔ افغان اخبار کے مطابق انہوں نے یہ بھی کہا افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی پر پاکستانی پشتونوں کو بھی تشویش ہے۔ پاک افغان سرحدی تنازعہ کے سوال پر محمود خان اچکزئی نے کہا بہتر ہے پاکستان اور افغانستان آپس میں مل کر یہ مسئلہ حل کر لیں ورنہ چین اور امریکہ دو ہفتے میں یہ معاملہ طے کر لیں گے۔ محمود خان اچکزئی نے انٹرویو دیتے ہوئے خیبر پی کے کو افغانوں کا علاقہ قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا افغان پناہ گزینوں کو ان کی زمین پر ہراساں نہیں کرنے دوں گا۔ انہوں نے کہا افغان پناہ گزینوں کو پاکستان کے کسی اور حصے میں ہراساں کیا جا رہا ہے تو وہ خیبر پی کے آ جائیں۔ محمود خان نے کہا طورخم اور افغان پناہ گزینوں کی زبردستی وطن واپسی دو الگ مسائل ہیں جو افغانستان میں افغام حکام کے ساتھ پاکستان میں پشتون رہنمائوں کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔ دوسری جانب صباح نیوز کے مطابق محمود اچکزئی نے کہا ہے افغان اخبار ’’افغانستان ٹائمز‘‘ نے میرا موقف غلط طریقے سے پیش کیا۔ صرف یہ کہا تھا خیبر پی کے تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ رہا ہے۔ یہ نہیں کہا خیبر پی کے افغانوں کا ہے۔ انہوں نے کہا تاریخی تناظر میں اس وقت یہ سب افغان سرزمین اور پشاور افغانوں کا مسکن تھا۔ افغان سرزمین دریائے آمو سے شروع ہوتی ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے بعد افغان لائن کے ادھر اور ہم ادھر رہ گئے۔ انہوں نے کہا افغانستان کے اخبار نے میرا بیان توڑ مروڑ کر اور غلط تناظر میں پیش کیا۔ میں نے تاریخ کے طالب علم کی حیثیت سے اس وقت کی تاریخ پر بات کی تھی۔ علاوہ ازیں وزیراعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک نے کہا ہے محمود خان اچکزئی کے بیان کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، کیا محمود اچکزئی خیبرپی کے کے بغیر ایک مکمل پاکستان کا تصور کر سکتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کے انٹرویو پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے وزیراعلی خیبرپی نے کہا خیبرپی کے ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی نے تمام پاکستانیوں کا سر شرم سے جھکا دیا ہے، خیبر پی کے کے عوام نے1947ء میں پاکستان کے حق میں فیصلہ دیا نہ کہ افغانستان کے، خیبر پی کے کے عوام محمود خان اچکزئی کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ اس سے قبل تحریک انصاف کے رہنما اسد عمر نے محمود خان اچکزئی کے بیان کو حیران کن قرار دیا۔ انہوں نے کہا اچکزئی کو افغانستان سے الفت ہے تو انہیں افغانستان مبارک ہو۔
پشاور( نوائے وقت رپورٹ+نیٹ نیوز) خیبر پی کے حکومت نے افغان مہاجرین سے متعلق نرم رویہ رکھنے کی درخواست مسترد کر دی ہے، نجی ٹی وی کے مطابق افغان سفیر عمر زخیل وال نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک سے ملاقات کی اور افغان حکومت کی طرف سے مہاجرین کے بارے میں رویہ نرم کرنے کی درخواست کی۔ اطلاعات کے مطابق صوبائی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے خطے کے وسیع تر مفاد میں پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصل مسئلہ مہاجرین نہیں بلکہ غیر رجسٹرڈ غیر ملکی ہیں جس کے تدارک کیلئے سنجیدہ اقدامات اُٹھائے جانے چاہئیں۔ ملاقات کے دوران خطے میں امن عامہ کی مجموعی صورتحال، افغان مہاجرین کی واپسی اور باہمی دلچسپی کے دیگر اُمور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیل وال نے صوبے میں افغان مہاجرین کو درپیش مسائل حل کرنے میں صوبائی حکومت خصوصاً محکمہ پولیس کے تعاون کو سراہا اور کہا وہ خود بھی چاہتے ہیں مہاجرین باعزت افغانستان واپس جائیں مگر افغانستان میں بھی امن عامہ کی ناخوشگوار صورتحال کی وجہ سے وہ واپس آجاتے ہیں انہوں نے اس صورتحال کا سدباب کرنے کا یقین دلایا۔ وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے کہا حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے درپیش چیلنجز سے نبردآزما ہونا دونوں حکومتوں کی ذمہ داری ہے انہوں نے کہاکہ اصل مسئلہ مہاجرین نہیں بلکہ غیر رجسٹرڈ غیر ملکی ہیں کیونکہ اس وقت ہمیں وسیع پیمانے پر خطرات کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے رجسٹریشن ناگزیر ہے۔انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی نے امن عامہ کی موجودہ صورتحال ، خطرات اور سیکیورٹی کے تقاضوں پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا وہ شناخت کے سلسلے میں مہاجرین کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کر رہے بلکہ بلا تفریق سب کی چیکنگ کرتے ہیں کوئی پاکستانی بھی شناختی کارڈ نہیں رکھتا تو اسے قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے افغان سفیر نے خطے میں امن کے قیام، فریقین کے درمیان رابطے کی بہتری اور مشکلات کو کم کرنے کیلئے اپنی طرف سے ہر ممکن تعاون اور بھر پور اقدامات کا یقین دلایا۔بی بی سی کے مطابق خیبر پی کے مہاجرین حکومت نے افغان مہاجرین کی پاکستان میں رہائش میں چھ ماہ کی توسیع کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے مہاجرین کی واپسی کے لئے فوری طور پر طریقہ کار وضع کیا جائے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے درمیان افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے افغان پناہ گزینوں کو واپس اپنے وطن بھیجا جائے جب کہ وفاق حکومت اس بارے میں بظاہر کسی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہی۔ وفاقی حکومت نے ایک بار پھر افغان پناہ گزینوں کے پاکستان میں قیام میں چھ ماہ کی توسیع کر دی ہے اور اب انہیں رواں برس31دسمبر تک رہنے کی اجازت دی گئی ہے۔ صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے بی بی سی کو بتایا وہ وفاقی حکومت کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں لیکن وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ کم سے کم ان پناہ گزینوں کی واپسی کے لئے کوئی باقاعدہ لائحہ عمل طے کرے اور اس کے لئے اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین سے رابطہ کیا جائے۔ مشتاق غنی کے مطابق خیبر پی کے بیشتر جرائم اور دہشت گردی کے واقعات کی کڑیاں افغانستان یا یہاں رہائش پذیر افغان مہاجرین سے جا ملتی ہیں۔ افغان سفیر حضرت عمر زخیلوال نے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے پرویز خٹک سے ملاقات میں افغان پناہ گزینوں کی رہائش کے معاملے پر بات چیت کی مشتاق غنی نے بتایا افغان سفیر نے یقین دہانی کرائی ہے ان چھ ماہ میں افغانستان میں مہاجرین کی رہائش کے انتظامات کیے جائیں گے۔ افغان سفیر سے ملاقات مثبت رہی اور اس میں باہمی امور پر بات چیت کی گئی۔مشتاق غنی کے مطابق خیبر پی کے افغان پناہ گزینوں کے خلاف کریک ڈائون نہیں کیا جا رہا تا ہم کوئی افغان شہری کسی جرم میں ملوث ہو تو اسے گرفتار کیا جاتا ہے اور یا کسی کے پاس یہاں رہنے کی مکمل دستاویزات نہ ہوں تو انہیں گرفتار کر کے وطن واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ خیبر پی کے میں ایک اندازے کے مطابق چھ لاکھ سے زیادہ رجسٹرڈ اور اس سے کہیں زیادہ تعداد میں غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین رہتے ہیں۔ صوبے میں 29کیمپس ہیں لیکن بڑی تعداد میں پناہ گزین شہری آبادی میں رہ رہے ہیں۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افغان مہاجرین کے خلاف بڑی کارروائیاں کی گئیں ۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران بھی ایک ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کو گرفتار کر کے وطن واپس بھیجا جا چکا ہے۔دی نیشن رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انٹرویو کی مذمت کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے سوال کیا ہے کہ وہ اس پر ردعمل ظاہر کرے۔ دوسری جانب حکومت نے اپنے اتحادی محمود اچکزئی کے ریمارکس کے حوالے سے مذمت نہیں کی۔ مزید برآں بیورو رپورٹ کے مطابق مشتاق غنی نے کہا ہے اچکزئی کو افغانستان اتنا ہی عزیز ہے تو وہ خود اپنے خاندان کے ہمراہ وہاں چلے جائیں اور افغان شہریت حاصل کر لیں۔