برسات تھوڑی ہو یا زیادہ‘ بلدیاتی اداروں کی کاکردگی کی قلعی ضرور کھول دیتی ہے‘ ایسا ہی گزشتہ دو روز میں ہوا۔ کشمور سے کراچی تک پھیلے سندھ میں مون سون کی بارشوں کا آغاز ہوا تو واپڈا‘ آبپاشی‘ بلدیات اورڈزاسٹر مینجمنٹ سب کے عیوب عیاں ہوگئے۔ محاسن تو تھے ہی نہیں کہ سامنے آتے‘ البتہ یہ ضرور پتہ چلا کہ کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں نے جو اجلاس مون سون کی بارشوں سے بچاﺅ کیلئے پیشگی کئے تھے اور نقصانات سے بچاﺅ کی جو ہدایات دی تھیں وہ بے اثر گئیں۔ دورکیوں جائیں وزیر بلدیات جام خان شورو اورو زیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ناک کے تلے کراچی میں معمولی بارش سے وہ بھیدبھاﺅ سامنے آئے جو اب تک ڈھکے چھپے تھے۔ وفاق کے سندھ میں نمائندے محمد زبیر بھی آئے دن دعوے کرتے ہیں۔ ایسا ہی میئر کراچی وسیم اختر اور نصف درجن ڈی ایم سیز کے چیئرمینوں کی جانب سے کہا جاتا ہے لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے۔ ماضی میں ان ہی کالموںمیں بارہا لکھا کہ بجلی‘ گیس‘ پانی اور دیگر یوٹیلٹی سروسز بالخصوص ڈزاسٹر مینجمنٹ کے اداروںکی کارکردگی کوبہتربنا لیا جائے تو عوام کی اکثریت کو ریلیف مل سکتا ہے مگر بد قسمتی یہ ہے کہ سول ڈیفنس اسکاﺅٹنگ‘ گرل گائیڈز اورپاکستان قومی رضا کار جیسے شعبوںکی موجودگی کا فائدہ اٹھانے کی بجائے انہیں مزید غیر فعال کردیا گیا حالانکہ ان کے فنڈز موجود ہیں جو حکومتیںجاری کرتی ہیں بنیادی ڈھانچہ استوار ہے اور ذراسی فعالیت کامظاہرہ کیا جائے تو مشکلات کا خاتمہ بھی ممکن ہے لیکن بیورو کریسی کو داددینی چاہئے کہ اس نے نا اہلی کا سلسلہ اتناوسیع کیاکہ ہنگامی حالات میں مدد کے ذمہ دار اداروں کوبھی ناکارہ کردیا۔
چند عشروں قبل تک تعلیمی اداروں میں NCC کی تربیت لازمی تھی‘ اب نہیں پتہ کہ اس کا کیا ہوا۔ اسکاﺅٹنگ اور گرل گائیڈ کا نظام مکمل فعالیت کے ساتھ موجود تھا‘ اب اس کی قومی جمبوریوں کی خبریں تو ملتی ہیں لیکن بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر اور قومی اسکاﺅٹس کمشنرراحیلہ حمید درانی مزید کیا کررہی ہیں؟ کچھ واضح نہیں۔ سندھ میں صوبائی سیکرٹری اختر میر فعال ہیں اور ان کے حوالے سے سرگرمیوں کا پتہ اخبارات سے چلتا رہتا ہے لیکن صوبہ بھر میں کراچی کے سوا کیا ہورہا ہے کچھ اندازہ نہیں۔ مون سون کی بارشوں کا سلسلہ اچانک شروع نہیں ہوتا‘ یہ ایک ایسا قدرتی نظام ہے جس کی پیش گوئی محکمہ موسمیات مہینوں قبل کرنے پر قادر ہے لیکن یہ قیاس آرائیاں بھی زبان زد عام ہیں کہ نہروں کے پشتے مستحکم‘ محکمہ نکاسی آب کے نالے صاف اورنشیبی علاقوں سے پانی کے اخراج کی موٹروں کی تنصیب ٹھیک اس وقت کی جاتی ہے جب برسات شروع ہو۔ اس طرح ہنگامی طورپر طلب کئے گئے فنڈز اتنی تیزی سے استعمال کئے جاتے ہیں کہ ان کا آڈٹ بھی ممکن نہ رہے۔ فارسی کہاوت کے مصداق ”گوشت بلی کھا گئی‘ بلی کو کتے نے نشانہ بنایا اور کتا بھاگ نکلا“ وقوعہ صاف‘ مجرم فرار ۔حساب کتاب ندارد۔
برسوں سے یہی چلن ہے بلکہ محکمہ آبپاشی کا عملہ تو بھانوٹ‘ قادر پور‘ لوپ بند سمیت کشمورسے ٹھٹھہ تک بہنے والے دریائے سندھ کے حفاظتی پشتوں کی کمزوری‘ مخدوش حالت‘ شگاف پڑنے اوررساﺅ کی خبریں علاقائی صحافیوں کو فرمائش کرکے شائع کراتا ہے تاکہ ریت کی بوریوں‘ بانسوں اورپتھروں سے لدے ٹرک منگوا کراس مقصد کیلئے جاری فنڈزکو ٹھکانے لگایا جاسکے۔ احمد پورشرقیہ کے سانحے نے کم ازکم یہ تو ثابت کردیا کہ من حیث ا لقوم ہم معمولی فائدے کیلئے جان سے کھیلنے پرتیار ہوجاتے ہیں ہم خطرات و حوادث کا مقابلہ دنیا کی دوسری اقوام کے مقابلے میں زیادہ ہنس کھیل کر کرتے ہیں۔
حرف آخر یہ کہ صرف بلدیات ہی نہیں‘ صحت کے شعبے میں بھی ہماری بے حسی تشویشناک حد تک زیادہ ہے۔ احمد پورشرقیہ میں جھلس جانے والوں کو ملتان لے جایا گیا کہ قرب وجوار میں بڑا برنس سینٹر نہیں تھا۔ سندھ میں صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے کہ کشمورسے کراچی تک پھیلے سندھ میں صرف ایک برنس سینٹر ہے وہ بھی کراچی میں۔ حکومت نے بارہا منصوبے بنائے کہ صوبے کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز اور ضلعی صدر مقامات پر برنس سینٹرز قائم ہوں گے‘ فنڈز بھی مختص کئے گئے لیکن نتیجہ وہی ”ڈھاک کے تین پات“ نکلا منصوبے شروع نہ ہوسکے‘ فنڈز ضائع گئے اور قوم کسی بھی حادثے یا سانحے کی صورت میں بدترین نتائج کے لئے تیار رہے۔ کراچی کا برنس سینٹر بھی ایک نجی فلاحی ادارے کے تعاون سے چلا پھرعملے سے اختلافات ہوئے توبات بگڑ گئی اب وہاں کیا صورت حال ہے کچھ واضح نہیں۔ عملے کو حقوق سے غرض ہے فرائض سے ہم سب غافل ہیں‘ ہر شخص چاہتا ہے کہ پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ملے لیکن اجرت کیلئے پسینہ بھر محنت پر تیارنہیں۔
بات برسات اوربلدیات کی کارکردگی سے شروع ہوئی تھی اور پھیل گئی درجن بھردیگر محکموں کی سمت ۔ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ ذاتی تاثر ہو کہ اختلاف کا حق ہر شخص کو ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ ہرآنے والا دن کارکردگی کو متاثرکررہا ہے خواہ کسی بھی شعبے کا تذکرہ کیوں ہو۔ ایسا کب تک ہوتارہے گا؟ مجموعی طورپر ہجوم سے قوم بننے کی کوشش کب رنگ لائے گی؟ فروغ گلشن وصوت ہزار کاموسم کب آئے گا؟
فروغ گلشن و صوت ہزارکاموسم.... کب آئے گا؟
Jul 01, 2017