سینئر صحافی میاں منیر احمد کا فون آیا’’ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کامیاب ہوئی یا ناکام ؟ ‘‘ یہ’’ ملین ڈالر‘‘ سوال تھا ۔ میں نے برجستہ جواب دیا کہ آل پارٹیز کانفرنس کا میا ب ہوئی اور نہ ہی ناکام ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے یہ حکومت نہیں کسی اور ’’قوت ‘‘ کے ْ خلاف آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی ہے جماعت اسلامی جو ’’اتحادوں ‘‘کی سیاست کی وجہ سے ہی پارلیمنٹ تک پہنچتی رہی ہے ، اس نے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ کی دعوت پر منعقد ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے انکار کر کے جہاں ایم ایم اے کے’’ تابوت ‘‘ میں آخری کیل ’’ٹھونک‘‘ دی ہے وہاں اپنی عدم شرکت سے عمران خان حکومت پر بھی ایک اور ’’ احسان ‘‘ کر دیا ہے اگرچہ جماعت اسلامی کا پارلیمنٹ میں سائز سکڑ گیا ہے لیکن وہ اپنی ’’سٹریٹ پاور ‘‘کو عمران خان کے خلاف استعمال کر کے نواز شریف اور آصف علی زرداری کو کوئی ’’سیاسی فائدہ ‘‘ نہیں پہنچانا چاہتی ۔ اسی طرح بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربرا ہ سردار اختر مینگل اپنی ’’اہمیت‘‘ بڑھانے کے لئے اپوزیشن کے ساتھ ’’راہ و رسم ‘‘ بڑھاتے رہے لیکن جس وقت اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس ہو رہی تھی اس وقت سردار اختر مینگل وزیر اعظم عمران خان سے وزیر اعظم آفس میں ملاقات کر رہے تھے۔ ان سے بجٹ کی حمایت کروا کر یہ ثابت کر دیا کہ قومی اسمبلی میں 179ارکان حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں جب کہ بجٹ میں اپوزیشن 149ارکان کے ووٹ حاصل کر سکی اس طرح حکومت نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ جب تک اسے پارلیمنٹ میں ایم کیو ایم ، بی این پی اور سابق فاٹا کے ارکان کی حمایت حاصل ہے اس کی پارلیمنٹ میں پوزیشن مضبوط ہے ۔ ایم کیو ایم نے صورت حال سے پورا فائدہ اٹھایا اور مشکل وقت میں حکومت کا ساتھ دینے پر ایک ‘‘وزارت ‘‘ کی صورت میں قیمت وصول کر لی ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں سردار مہتاب احمد خان نے پاکستان مسلم لیگ(ن) کے وفد کے رکن کی حیثیت سے شرکت کی وہ کانفرنس کے مثبت پہلوئوں کو پیش نظر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’آل پارٹیز کانفرنس کو ا س لحاظ سے ’’کا میاب‘‘ قرار دیا جا سکتا ہے ’’میثاق جمہورت ‘‘ کے بعد پہلی بار ملک کی سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے کم ہونا بھی بڑی کامیابی ہے ‘‘ آل پارٹیز کانفرنس کے منتظمین میں جمعیت علما اسلام (ف) اسلام آباد کے امیر مولانا عبدالمجید ہزاروی شا مل تھے۔ میں نے آل پارٹیز کانفرنس کی ’’اندرونی کہانی ‘‘ معلوم کرنے کے لئے متعدد شرکاء سے رابطہ قائم کیا تو یہ حقیقت سامنے آئی کہ مولانا فضل الرحمن نے آل پارٹیز کانفرنس کو ناکامی سے بچانے کے لئے جگہ جگہ پر کمپرومائز کیا۔ مشترکہ اعلامیہ کو سب کے لئے ’’قابل قبول ‘‘ بنانے کے لئے ترامیم کیں ۔ میری اطلاع کے مطابق مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ تیار کرنے کے لئے احسن اقبال ، رحمت کاکڑ ،فرحت اللہ بابر اورمیاں افتخار حسین پر مشتمل کمیٹی سائیڈروم میں مشترکہ اعلامیہ کا مسودہ تیار کرتی رہی۔مولانا فضل الرحمنٰ نے توہین صحابہ کے معاملہ پر مذمت کے الفاظ مشترکہ اعلامیہ میں شامل کرنے پر زور دیا جس کی مخالفت کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ’’ سیاسی معاملات میں مذہب کو استعمال نہ کیاجائے ‘‘ جس پر مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ ’’ناموس صحابہ ؓ تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ناموس صحابہ ؓ کا تحفظ ہی ہماری سیاست کا محور ہے ‘‘ لیکن پیپلز پارٹی کے اصرار پر توہین صحابہؓ کے الفاظ کی بجائے حکومت کے اسلام مخالف اقدامات پر تشویش کا اظہار شامل کیا گیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان پیپلز پارٹی ایک سانس میں حکومت گرانے کی بات کرتی ہے تو دوسرے سانس میں یہ کہہ کر اگر تحریک چلی تو ملک میں مارشل لاء لگ جائے گا، اسلام آباد کی طرف ’’ملین مارچ ‘‘ یا لاک ڈائون کی مخالفت کرتی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی بات کی تو بھی بلاول بھٹو زرداری آڑے آگئے ۔مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ ہم مڈٹرم الیکشن کی طرف جائیں گے جس پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔ دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کسی صورت سندھ میں حکومت کا خاتمہ ’’ افورڈ‘‘ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ اگر وہ حکومت گرانے کے لئے کسی تحریک کا حصہ بنی تو سندھ میں گورنر راج لگ جائے گا لہذا وہ سندھ حکومت کی ’’قربانی ‘‘ دینے کے لئے تیار نہیں۔ آل پارٹیز کانفرنس میں مولانا فضل الرحمن پیپلز پارٹی کے طرز عمل پر سخت برہم ہوئے اور کہا کہ یہی طرز عمل رہا تو قبل اس کے کہ میڈیا آل پارٹیز کانفرنس کو’’ ناکام ‘‘ قرار دے، میں خود ہی آل پارٹیز کی ’’ناکامی‘‘ کا اعلان کئے دیتا ہوں ۔ مولانا فضل الرحمنٰ کی دھمکی کام دکھا گئی۔ بلاول بھٹو زرداری بھی ٹھنڈے پڑ گئے مولانافضل الرحمن بعض اپوزیشن جماعتوں کے حکومت کے لئے نرم گوشہ رکھنے پر ناراض ہیں۔ اے پی سی میں دو مواقع ایسے بھی آئے جب بلاول بھٹو زردار ی اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ’’سخت جملوں ‘‘ کا تبادلہ ہوا۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ’’ اس وقت جو حکومت کی پوزیشن ہے اور رویہ ہے، اس کے باوجود بھی اگر اپوزیشن کے ارکان ان سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور ایسی حکومت سے جس کو وہ تسلیم بھی نہیں کرتے تو پھر ٹھیک ہے وہ جائیں اور جاکر ان سے بات چیت کریں مولانا فضل الرحمن کی جانب سے شدید برہمی پر بلاول بھٹو زرداری ‘ شہباز شریف اور مریم نواز انگشت بدنداں رہ گئے ۔ مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا کہ2،3ماہ بعد موسم بہتر ہو جائے گا،25جولائی 2019ء کو پشاور میں ’’کھڑاک‘‘ ہو گا پھر پنجاب میں ملین مارچ ہوں گے، اس کے بعد اسلام آباد جانے کی کال دوں گا اگر اس کے نتیجے میں ہمیں مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا تو ہم کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وہ ’’اپنے نانا ‘ دو ماموں اور والدہ کو گنوا چکے ہیں ،وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے‘‘ جس پر عوامی نیشنل پارٹی کے ایک رہنما نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ’’ اگر اسی طرح ہمارے درمیان تلخیاں پیدا ہوتی رہیں تو پھر یہ ہماری ناکامی ہوگی۔ میر حاصل بزنجو نے احتجاج کا طریقہ کار طے کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز پیش کر دی۔آل پارٹیز کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) مولانا فضل الرحمنٰ کی ہمنوا رہی اور کہا کہ اے پی سی جو فیصلہ کر ے گی، اس کی حمایت کی جائے گی ۔ البتہ جب آل پارٹیز کانفرنس میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک اعتماد لانے کی تجویز آئی تو کسی جانب سے مخالفت نہیں ہوئی اور کانفرنس میں یہ سوچے بغیر کہ نیا چیئرمین کون ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد کے لئے ایک ’’ماحول‘‘ بن گیا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا معاملہ اے پی سی کی ’’رہبر کمیٹی‘‘ کے سپرد کر دیا گیا ہے جو خود ابھی تشکیل کے مراحل سے گذر رہی ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثنا اللہ نے مولانا فضل الرحمنٰ سے استفسار کیا کہ ’’آپ کب اسلام آبادآرہے ؟‘‘ تو انہوں نے برجستہ جواب دیا’’ آپ ساتھ دینے کا اعلان کریں میں تو کل ہی اسلام آباد آنے کے لئے تیار ہوں‘‘ ۔ بلاول بھٹو نے ’’سلیکٹڈ‘‘ کا کیا طعنہ دے دیا حکومتی ارکان نے اسے دل سے لگا لیا سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے دو قدم آگے بڑھ کر اس لفظ کے استعمال پر پابندی لگا دی ۔میں یہ بات بار بار حکومت اور اپوزیشن کو گوش گذار کر چکا ہوں کہ اپنے دروازے بند نہ کریں ۔یہ اسی صورت ممکن ہے جب ملکی سیاست میں ایک دوسرے کے لئے سیاست میں گنجائش پیدا کی جائے۔ سیاسی مخالفین سے جیلیں بھرنے اور انہیں دیوار سے لگا کر زیادہ دیر تک کھیلا نہیں جا سکتا۔ سپیکر کو ’’متعصب‘‘ کہنے پر بلاول بھٹو کے خلاف قرارداد مذمت منظور کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ اب مسلم لیگ(ن) کے15’’ ناراض‘‘ارکان پنجاب اسمبلی کی وزیر اعظم سے ملاقات کا شوشہ چھوڑا گیا ہے چونکہ کوئی نام سامنے نہیں آیا لہذا یہ ’’خبر‘‘ بھی بے بنیاد نظر آتی ہے میرا حکومت کو یہ مشورہ ہے کہ وہ ’’فارورڈ‘‘ بلاک بنانے کے کھیل سے اپنے آپ کو الگ کر لے بصورت دیگر یہ کھیل کمزور جمہوری نظام کو مزید کمزور کر دے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اعلیٰ سطح پر ’’سیاسی ڈائیلاگ‘‘ کا سلسلہ شروع کر دینا چاہیے ’’ سیاسی ٹمپریچر‘‘ کم ہو گا تو ستمبر اکتوبر2019ء میں اسلام آباد کی جانب’’ ملین مارچ اور دھرنا‘‘ موخر ہو گا۔
آل پارٹیز کانفرنس کی ’’اندرونی کہانی‘‘
Jul 01, 2019