کس کی لگن میں پھرتے ہو

ایک زمانے میں سفرنامہ کو ادبی صنف سخن نہیں کہا جاتا تھا۔ اب تو سفرنامہ لکھنا عام ہو گیا ہے۔ جس نے کسی ملک میں دو دن بھی گزارے وہ سفرنامہ لکھنا ضروری سمجھتا ہے۔ ایسے میں کچھ سفرنامے ایسے بھی آتے ہیں کہ آدمی ان کے مطالعے سے چاہے تو خود بھی ان ممالک کاسفرنامہ لکھ سکتا ہے۔
ایک اہم ادبی شخصیت شاعر ادیب اور صحافی سعید آسی نے تین ملکوں کی سیاحت کے بعد ایک سفرنامہ لکھا ہے۔
’’جزیرہ جزیرہ‘‘ نام سے یہ سفرنامہ معروف ادیب اور پبلشر طاہر اسلم گورا نے بڑی محبت سے چھاپا۔ مگر وہ پاکستان سے چلے گئے اور پچھلے تقریباً چالیس برس سے جاپان میں ہیں۔ کبھی کبھی پاکستان کا دورہ بھی کر لیتے ہیں۔ وہ پریشان ہیں کہ پاکستان کا سفرنامہ لکھیں یا جاپان کا۔
یہ 1997ء کی بات ہے۔ مالدیپ، برونائی اور انڈونیشیا کا ایک مشترکہ سفرنامہ سعید آسی نے لکھا تھا۔ جسے اب 2019ء میں ایک متحرک پبلشر عبدالستار عاصم نے بہت خوبصورتی سے دوبارہ شائع کیا ہے۔ محمد فاروق چوہان نے خاص طور پر تعاون کیا ہے۔ اب اس اعلیٰ کتاب کا نام ہے ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘
آسی صاحب کی روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ چالیس برس کی رفاقت ہے۔ میں انہیں پہلے صحافی اور پھر ادیب سمجھتا مگر اُن کی تازہ کتاب نے مجھے اس قدر متاثر کیا۔ ان کے اسلوب نے انہیں زیادہ محبوب بنا دیا۔ وہ شعر و ادب سے اتنی محبت کرتے ہیں کہ میں اب سمجھتا ہوں کہ وہ پہلے ادیب شاعر ہیں اور پھر صحافی ہیں۔ اُن کی اردو شاعری کی ایک کتاب ہے اور پنجابی شاعری کی دو کتابیں ہیں۔ ’’تیرے دکھ بھی میرے دکھ ہیں‘‘ ’’سوچ سمند‘‘ اور ’’رمزاں‘‘ دو کتابیں کالموں کے انتخاب پر مشتمل ہیں۔ کب راج کرے گی ’’خلق خدا‘‘ ’’تری بکل دے وچ چور‘‘ دو سفر ناموں کی کتابیں ہیں۔ ’’آگے موڑ جدائی کا‘‘ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘۔ ایک بہت اہم دلچسپ اور منفرد بات ہے کہ سعید آسی نے اپنی کسی کتاب کے لیے کسی کی رائے ، فلیپ اوردیباچہ شامل نہیں کیا۔
عام طور پر سفرناموں میں مسافر خواتین کا بڑا ذکر ہوتا ہے۔ اس طرح ہمارے کئی دوست رومانٹک بننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ میرے خیال میں زندگی کے سفر میں بھی ہمسفری کے آداب اور رومانس کی شائستگی بے حد ضروری ہے۔ مگر سعید آسی نے ’’حرف اول‘‘ کے طور پر جو اولیں جملہ لکھا ہے ، اس کی معنویت اور محبت کا اندازہ لگایئے اور لطف اٹھایئے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے مقدرات کے سفر کی کہانی رنگین نہیں سنگین ہے۔ تو آسی صاحب کی خدمت میں عرض ہے زندگی کے سفر کی کہانی بھی سنگین ہی ہے جبکہ کبھی کبھی سنگین اور رنگین میں فرق مٹ جاتا ہے۔
مگر میں نے سفرنامہ پڑھتے ہوئے محسوس کیا کہ میں کسی کو یہ ہدایت نہ کروں گا کہ وہ کسی سربراہ مملکت کے ساتھ کسی ملک کے سفر پر نکلے مگر مجھے بھی ایک سفر پر نکلنا پڑا۔ صدر زرداری کے ساتھ دیار حجاز کی طرف سفر پر نکلنا پڑا۔ صدر زرداری کے ساتھ دیار حجاز کی طرف سرکاری مسافر کے طورپر جانا پڑا۔ امی کو معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے بلایا اور کہاکہ مجھے معلوم ہے تم کسی حکمران کے ساتھ کسی ملک میں نہیں گئے اور اپنے طورپر کئی ملکوں میں گئے ہو۔ اب چلے جائو کہ دیار حجاز کا بلاوہ اصل میں کسی اور کی طرف ہوتا ہے۔ میں اس بڑی اور سچی خاتون کی بات سمجھ گیا۔ وہ ہر وقت درود شریف پڑھتی رہتی تھیں اور میرا بھی یہ معمول ہے۔ میں تو مسلمان ہونے میں واحد شرط درود شریف پڑھنے کو سمجھتا ہوں۔ الھم صلی علیٰ محمد و علیٰ آل محمد۔
مجھے ’’دیار حجاز‘‘ کے سفر میں خیال نہیںآیا کہ میرا خیال رکھا جا رہا ہے‘ یا نہیں رکھا جا رہا۔ سعید آسی صاحب کی کتاب پڑھ کر مجھے خیال آیا کہ کوئی حکمران ملک سے باہر بھی اپنے لوگوں کا کچھ خیال نہیں رکھتا۔ برادرم سعید آسی نے بڑی آسانی اور روانی سے ساری مشکلوں اور بدسلوکیوں کا تذکرہ بہت خوشدلی سے کر دیا ہے۔ وہ ایک بے مثال طرز تحریر کے ادیب ہیں۔
مجھے اتنا لطف آیا کہ مجھے آسی صاحب کی بھی ان باتوں کا خیال نہیں آیا کہ حکمرانوںکا ہمسفر ہونا منزلوں کا پتہ دیتا ہے مگر راستو ں کا نہیں۔ ہم وہ لوگ ہیں جنہیں منزلوں کا پتہ ہوتا ہے راستوں کا پتہ نہیں ہوتا۔
یہ کتاب قلم فائونڈیشن نے ایک دوستانہ جذبے سے چھاپی ہے۔ کتاب پڑھنے کے بعد آ خر میں حرف اول پر نظر پڑی تو مجھے محسوس ہوا کہ سنگین ہونا کبھی کبھی رنگین ہونے سے بھی زیادہ مزیدار ہو جاتا ہے۔ رنگ و بو کو لہو میں اتارنا اندر کی کیفیت ہے۔ باہر کی نہیں ہے۔

ای پیپر دی نیشن