وزیراعظم عمران خان اپنے دور اقتدار میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم کی طرح بات کرتے ہوئے دکھائی دیے ہیں۔ اس سے پہلے وہ قومی اسمبلی میں خطاب کریں، کسی تقریب میں جائیں، کسی منصوبے کا افتتاح کریں یا کہیں بھی بات کریں وہ ہمیشہ چیئرمین پاکستان تحریکِ انصاف کی حیثیت سے ہی بات کرتے دکھائی دیے ہیں۔ گذشتہ روز قومی اسمبلی میں جس انداز سے انہوں نے بات کی ہے یہ خطاب عملی طور پر ملک کے وزیر اعظم کا خطاب تھا، ایک درد مند پاکستانی کی آواز تھی، ایک محب وطن پاکستانی کی پکار تھی۔ تقریر کرنے میں وزیراعظم کو مہارت حاصل ہے وہ الفاظ کے باونسرز سے سیاسی مخالفین کو زیر یا زچ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور یہ کام برسوں سے وہ کامیابی کے ساتھ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ وزیراعظم بننے کے بعد اور لگ بھگ ڈھائی برس اس اہم ترین منصب پر گذارنے کے بعد وزیراعظم نے پہلی مرتبہ ملک کا وزیراعظم بننے کا مظاہرہ کیا ہے۔جہاں وزیراعظم عمران خان کا بدلہ رویہ قابل تعریف ہے وہیں اپوزیشن کا کردار اس سے بھی زیادہ سراہے جانے کے قابل ہے۔ اپوزیشن نے وزیراعظم کی تقریر کے دوران جس تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا ہے اور وزیراعظم کی طرف سے اہم نکات پر ڈیسک بجا کر تائید کی یہ لمحات ملکی سیاست کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اب ضرورت اس سے اگلے مرحلے کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی طرف بیانات و اعلانات کو عملی جامہ پہنانا ہو گا جب کہ اپوزیشن کو بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو قومی مسائل حل کرنے کے لیے مختص کرنا ہو گا۔ کوئی قانون سازی، کوئی ضابطہ اخلاق پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافہ نہیں کر سکتا۔ پارلیمنٹ کی عزت و توقیر میں اضافہ صرف اور صرف سیاست دان ہی کر سکتے ہیں۔ اگر وزیراعظم نے قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر ماضی میں ہونے والی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے اور اپنے دور حکومت کی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے یا پھر انہوں نے عوام کو سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے یا پھر انتخابی اصلاحات کی بات کرتے رہے ہیں۔ اب اگلا مرحلہ عملدرآمد کا ہے۔ حکومت عملی اقدامات کی طرف بڑھے، عوام کو سہولیات فراہم کرے، ملک میں جمہوری نظام کی مضبوطی کے لیے کام کرے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ ثابت کرنا ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں جو باتیں کی ہیں وہ صاف نیت اور بہتر مستقبل کی خاطر ہیں، انہیں اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی سیاست دان سے ذاتی عناد نہیں رکھتے، انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ کسی کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنائیں گے۔
وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھاکہ "ایک کروڑ بیس لاکھ خاندانوں کو براہ راست آٹا گھی چینی پر سبسڈی دیں گے۔ نوے ہزار انڈر گریجویٹ طلبہ کو سکالرشپ دیں گے۔ پورے ملک میں پناہ گاہوں کا جال بچھا رہے ہیں۔ زرعی شعبے میں ٹیکسز پر ایک ارب روپے کی چھوٹ دی ہے کوشش کر رہے ہیں کہ ملک میں فوڈ سیکیورٹی کو بڑھایا جائے۔
تیرہ ایکڑ سے کم اراضی والے کسان کو سبسڈی دیں گے۔ مڈل مین کا کردار ختم کرنے کے لیے کسان مارکیٹیں بنائی جائیں گی۔" وزیراعظم ان اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مانیٹرنگ کا نظام وضع کریں جہاں سے ان اقدامات پر روزانہ کی معلومات عوام تک پہنچیں جیسے کرونا کے دنوں میں این سی او سی روزانہ معلومات عوام تک پہنچاتی ہے ایسے ہی فلاحی منصوبوں کے حوالے سے بھی عوام کو ہر لمحہ باخبر رکھا جائے تاکہ ووٹرز کو علم ہو کہ منتخب نمائندے کیا کر رہے ہیں۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ کسانوں، اشیاء خوردونوش اور مڈل مین کے حوالے سے ان صفحات پر مسلسل لکھا گیا ہے اسے حکومتی حلقے اپوزیشن کا کالم سمجھتے تھے اور اپوزیشن والے کسی اور نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن حقیقت یہ تھی کہ تمام عوامی مسائل پر بات چیت خالصتاً وسیع تر ملکی مفاد میں کی گئی اور گذشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی تقریر میں لگ بھگ وہ تمام نکات شامل تھے جن پر ہم مسلسل عوام کی وکالت کرتے رہے ہیں۔ اب اپوزیشن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے کردار ادا کرے۔ اپوزیشن کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ یہ ملک صرف پاکستان تحریکِ انصاف کا نہیں ہے یہ ملک تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے ووٹرز کا بھی ہے۔ ملک مضبوط ہو گا تو سب کی سیاست پھلے پھولے گی، ملک مضبوط ہو گا تو اس کا اپوزیشن لیڈر بھی طاقتور ہو گا۔ سیاست دان ہی ملک کو سیاسی طور پر مضبوط کر سکتے ہیں۔ آگے بڑھیں ملک و قوم کی بہتری کے لیے قوانین پر عمل کریں، نئے قوانین بنائیں۔ آئین و قانون کی بالادستی کے لیے سب سے پہلے خود میدان عمل میں آئیں۔ کسی کو نشانہ بنانے کے لیے قانون سازی کا عمل روکا جانا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان اپنے ترجمانوں کو ضابطہ اخلاق کا پابند بنائیں اگر حزب اختلاف کی طرف سے سخت جملے بھی آتے ہیں تو خندہ پیشانی سے قبول کریں، برداشت پیدا کریں۔ حکومت پر حملے ہوتے ہیں لیکن جوابی حملوں سے ناصرف پارلیمنٹ کس ماحول خراب ہوتا ہے بلکہ ملک و قوم کا وقت اور سرمایہ بھی ضائع ہوتا ہے۔ حکومتی وزراء اور ترجمانوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ انہوں نے صرف حکمرانی نہیں کرنی بلکہ قوم کے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کی تربیت بھی کرنی ہے۔ آئندہ دو برس اگر سیاست دان ذاتی اختلافات کو بھلا کر متحد رہتے ہوئے کام کرتے ہیں تو کوئی شک نہیں برسوں میں ہونے والا کام مہینوں میں مکمل ہو سکتا ہے۔ معیشت بہتر ہو سکتی ہے، روزگار کے مواقع بڑھ سکتے ہیں، مسائل کم ہو سکتے ہیں لیکن یاد رکھیں تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا اور خود پسندی سے نکل کر سب کو گلے لگانا ہو گا۔
آگے بڑھیں، الفاظ کو حقیقت میں بدلیں!!!
Jul 01, 2021