’ارشادنامہ‘ اس دور کی بیسٹ سیلر کتاب ہے،فیروز سنز جیسے بڑے ادارے نے اسے چھاپا اوراس کا پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ بک گیا ،اس کی ریکارڈ فروخت میں صاحب کتاب چیف جسٹس ارشاد حسن خان کا بڑا دخل ہے انہوں نے اپنے دور میں بڑے اہم فیصلے کیے جن کی وجہ سے کتاب کی اہمیت بھی دو چند ہوگئی ہے۔چیف جسٹس صاحب کی نوازش ہے انہوں نے میرے مختصر تبصرے کو پسند فرمایا مگر کہا کہ اس میں بہت تشنگی باقی ہے ،میں نے کہا بہتر ہوگا آپ مجھے ایک مکتوب کے ذریعے آگاہ فرما دیںکہ اس کتاب میں کیا ہے اورکیا نہیں ہے میں آپ کا مکتوب گرامی قارئین کی نذر کردوں گا،تو لیجئے ارشاد نامہ پر بار دگر ایک تبصرہ مگر خود صاحب کتاب کی زبانی۔
12اکتوبر 1999ء کو آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے وزیرِ اعظم نواز شریف کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیااور اپنے لئے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکٹو کا ٹائٹل اختیار کر لیا۔جنرل مشرف کے اس اقدام کو لیگی رہنما ظفر علی شاہ نے نامور قانون دان خالد انور کے ذریعے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔تب راقم چیف جسٹس نہیں تھابلکہ میں نے آرمی ٹیک اوور کے 106دن بعد چیف جسٹس پاکستان کا حلف لیا۔عدالت عظمیٰ کے 12رکنی بنچ نے میری سربراہی میں کیس کی سماعت کی جو کئی بار جاری رہی کیس کی سماعت کے دوران ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے عدالت کی معاونت کی۔فیصلہ آیا توا سے بہت سراہا گیاالبتہ تنقید کرنے والوں کا اصرار تھا کہ آرمی ٹیک اوور کو غیر آئینی ’’کیوں ‘‘ نہیں قرار دیا گیااور یہ کہ فوجی حکومت کو بن مانگے تین سال ’’کیوں ‘‘دیئے گئے اور آئینی ترمیم کا اختیار ’’کیوں‘‘ دیا گیا۔اگرچہ یہ فیصلہ اکیلے راقم کا نہیں بلکہ 12رکنی بنچ کا تھا۔ اور تو اور پٹیشنر کے وکیل خالد انور بھی فیصلے سے متفق تھے۔ ’’ارشادنامہ‘‘ میں تمام اعتراضات کا تفصیلی جواب بھی دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جنرل مشرف کے دبائو کے باوجود استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ بات بھی سُنی گئی کہ اُنہیں جنرل پرویز کیانی کی حمایت حاصل تھی ۔ بہر کیف ملک بھر کے وکلاء اُنکی حمایت میں اور صدر مشرف کو ہٹانے کیلئے میدان میں نکل آئے۔ بظا ہر یہ ناممکن صرف اس لئے ممکن ہو سکا کہ ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے باعث پارلیمنٹ اور جمہوریت بحال ہوچکی تھی تب جنرل پرویز مشرف آرمی چیف نہ تھے، محض ’’آئینی‘‘ سربراہ مملکت رہ گئے تھے۔سوال یہ ہے کہ جب چیف جسٹس سعید الز ماں صدیقی کو پی سی او پر حلف نہ لینے پراور اسی طرح چیف جسٹس منیر یا چیف جسٹس انوارالحق کے فیصلوں کے خلاف کیوں نہ وکلاء میدان میں آئے یا عوامی تحریک چلائی گئی۔تنقید کرنا تو بہت آسان ہے ، لیکن مارشل لاء مسلط ہو تو ایسی تحریکیں چلانا آسان نہیں۔ظفر علی شاہ کیس میں پٹیشنرز کی طرف سے نامور قانو ن دان خالد انور پیش ہوئے۔ اُنہوںنے خود کہا۔
''I will not request this Court to do the impossible''
یعنی نواز شریف کی حکومت کی بحالی کی درخواست تو نہیں کروں گا۔ البتہ ’’ جو ہوچکا اُسے کنڈون کریں ورنہ ملک میں انارکی اور افراتفری پھیلے گی، جو ہم نہیں چاہتے لہٰذا ایک معقول ٹائم فریم دے دیں ، کہ یہ کب واپس جائینگے۔‘‘ معاون دوست ایس ایم ظفر نے بھی کہاـ ’’اگر عدلیہ جنرل مشرف کو عارضی طور پر اقتدار کے جواز کاحق دار سمجھتی ہے تو اسے اس بات سے مشروط کیا جائے کہ وہ جلد سے جلد افواج پاکستان کو انکی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کیلئے اقتدار سے واپس کرتے ہوئے ایک طے شدہ مدت میں ملک میں انتخابات کراکر اقتدار عوام کے نمائندوں کے حوالے کرے اور عدلیہ وہ غلطی نہ کرے جو اُس سے نصرت بھٹو کیس میں ہوئی جب فوج کی واپسی کا نظام نہیں دیا گیا تھاـ‘‘۔ جنرل مشرف کو تین سال(عملاً ڈھائی سال) میں انتخابات کرانے کا پابندمسلم لیگ (ن) کے وکیل خالد انور (معاون دوست) ایس ایم ظفر اور دیگر وکلاء صاحبان کے دلائل اور سرتاج عزیز پٹیشن کی روشنی میں کیا گیا۔ اس مدت کا پہلا دن ٹیک اوور سے شروع ہوا۔ اُس وقت ٹیک اوور کو چھ ماہ ہوگئے تھے۔ رہا سوال ترمیم کا اختیار دینے کا تو ظفر علی شاہ کیس (PLD 2000 SC 869)صفحہ 1221 ملاحظہ فرمائیے: جہاںصاف طور پر یہ تحریر ہے کہ
6(ii) ''That Constitutional Amendments by the Chief Executive can be resorted to only if the Constitution fails to provide a solution for attainment of his declared objectives........''
یعنی چیف ایگزیکٹو آئینی ترامیم کا سہارا صرف اُسی وقت لے سکتا ہے جب آئین کی کوئی شق انکے اعلان کردہ مقاصد )سات نکاتی ایجنڈا)کو نافذ کرنے میں رُکاوٹ بنے۔تاہم آئین میں ایسی کوئی رکاوٹ نہ تھی یہ محض نمائشی اختیار تھا۔
(iii) ''That no amendment shall be made in the salient features of the Constitution i.e. independence of Judiciary, federalism, parliamentary form of government blended with Islamic provisions.''
ترجمہ:آئین کی حقیقی روح (عدلیہ کی آزادی ، وفاقیت ، پارلیمانی طرزِ حکومت اور اسلامی دفعات ) کو مجروح کرنے والی کوئی ترمیم نہیں کی جائے گی۔
(iv) ''That Fundamental Rights provided in Part II, Chapter 1 of the Constitution shall continue to hold the field. ......''
ترجمہ:آئین کے پارٹ 2،اورباب 1،میں فراہم کردہ بنیادی حقوق نافذ العمل رہیں گے۔
مندرجہ بالا فیصلے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جہاں تک آئینی ترمیم کاتعلق ہے، ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے میں کہا گیا کہ جنرل مشرف کوآئین میں ترمیم کا اختیار ہے، بشرطیکہ آئین میں کوئی ایسی شِق نہ ہو جو جنرل مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کے نفاذ میں رُکاوٹ بنے تاہم ایسی کوئی رُکاوٹ نہ تھی ، اسکے علاوہ آئین کی کسی شق میں ترمیم کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔علاوہ ازیں مندرجہ بالا ترمیم کیلئے بھی بہت سی کڑی شرائط عائد کی گئیں، جن کا پورا کرنا ممکن نہ تھا ، جنرل مشرف کو جو ترمیم کا اختیار دیا گیا وہ محض نمائشی اختیار تھا۔صاف لفظوں میں آئین میں کسی ترمیم کی اجازت نہیں دی گئی۔ اس بے بنیاد الزام کا مفصل جواب بھی ’’ارشاد نامہ‘‘ کے باب ’’آئین میں ترمیم کی اجازت کی حقیقت‘‘میں دیکھا جاسکتا ہے ۔میرے خلاف جتنی بھی تنقید ہو ئی وہ اس مفروضے کی بِنا ء پر ہوئی کہ میں نے جنرل پرویز مشرف کو ترمیم کرنے کا اختیار دیا ، جو حقیقت اور ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے برعکس ہے۔ جنہوں نے بھی ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی مخالفت کی اُن سے گزارش ہے کہ حتمی رائے قائم کرنے سے پہلے یہ فیصلہ دوبارہ پڑھ لیں۔
ریکارڈ درست رکھنے کیلئے یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ لیگل فریم ورک آرڈر اُس وقت جاری ہوا جب میںچیف الیکشن کمشنر تھا۔ میری رائے میں لیگل فریم ورک آرڈر ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے سے متصادم تھا، میں ان ترامیم کے مخالف تھا۔ اس لئے میں نے بہ حیثیت چیف الیکشن کمشنر قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کو حلف دینے سے انکار کر دیا۔ چنانچہ میر ی بجائے الیکشن کمشنر کے دیگر ارکان نے ان سے حلف لیا لیکن پارلیمنٹ نے لیگل فریم ورک آرڈر کو چند تبدیلیوں کے ساتھ بذریعہ 17ویں آئینی ترمیم 31دسمبر 2003ء کو منظور کر لیا۔بطور چیف الیکشن کمشنر حکومت میرے فیصلوں سے ناخوش تھی ۔کئی بار فیصلہ ہوا کہ مجھے میرے عہدے سے فارغ کر دیا جائے،یا کم از کم میری تعیناتی تاحکم ثانی کر دی جائے،تاکہ مجھے کسی بھی وقت فارغ کیا جاسکے۔ ایک مرتبہ مجھے فارغ کرنے کا تحریری حکم نامہ بھی جاری کر دیا گیا۔جس کیلئے گزٹ میں نوٹیفکیشن ضروری تھا، لیکن اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے حکومت کو مشورہ دیا کہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ آئین بحال ہو چُکا ہے اور آئین کی شق نمبر215 کے تحت صر ف سپریم جوڈیشل کونسل ہی چیف الیکشن کمشنر کو اس کے عہدے سے فارغ کرنے کا حکم صادر کر سکتی ہے۔ارشاد نامہ کے مصنف کی حیثیت سے مجھے جو کچھ کہنا چاہئے تھا، مختصراً عرض کر دیا ہے۔