اسداللہ غالب صاحب کا ممنون ہوں کہ اپنی کمزور بینائی اور پڑھنے لکھنے کی قوت میں شدید دشواری کے باوجود انہوں نے حال ہی میں قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل کے زیراہتمام شائع ہونیوالی میری کتاب ’’ولایت نامہ‘‘ کو اپنے تبصرہ کیلئے منتخب کرتے ہوئے انگلستان میں میری فلاحی‘ سماجی‘ ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کا ہی ذکر نہیں کیا ایک حساس ادارے میں سرانجام دی گئی میری طویل خدمات کا خاکہ بھی انہوں نے اس خوبصورتی سے کھینچا ہے کہ انکی یادداشت پر مجھے رشک ہونے لگا ہے۔ سچ پوچھیں تو یہ ایک راز تھا جو انہوں نے برطانیہ کیلئے یکے بعد دیگرے کئے اپنے سفری تجربوں سے اگلے روز فاش کر دیا۔
لندن ہیتھرو ایئرپورٹ کے ڈومیسٹک ٹرمینل ون پر نیلے رنگ کے Safari Suit میں قطار میں کھڑے جب انہیں دیکھتا تو کوشش کے باوجود میری ان سے ملاقات ممکن نہ ہو پائی جسے میں محسوس تو کرتا مگر میری ’’بریڈاینڈ بٹر‘‘ سامنے آجاتے۔ جس طرح اپنے مربی و محسن شعیب بن عزیز صاحب‘ سابق آئی جی پنجاب حاجی محمد حبیب الرحمان صاحب‘ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید‘ محمد شہبازشریف صاحب علاج کیلئے لندن تشریف لانے والے اور تین مرتبہ منتخب وزیراعظم محمد نوازشریف صاحب‘ موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب‘ چودھری پرویز الٰہی‘ چودھری شجاعت حسین صاحب اور متعدد وزراء کرام اور 22 گریڈ کے افسران کو آتے جاتے دیکھ لیتا تھا اسی طرح جناب اسداللہ غالب صاحب کے سفاری سوٹ کی نشانی کو میں اب تک نہیں بھلا پایا۔
غالب صاحب کے ہمراہ ایک مرتبہ جناب قدرت اللہ چودھری صاحب کو بھی قطار میں کھڑے دیکھا‘ اپنے ساتھ غالباً وہ اردو میگزین کی ایک اچھی خاصی تعداد لے کر آئے تھے جسے انہوں نے مانچسٹر‘ ہڈرزفیلڈ‘ بریڈفورڈ‘ راچڈیل اور گلاسگو کے دورہ کے دوران تقسیم کرنا تھا۔ غالب صاحب برطانیہ جب بھی آتے اگلے ہی لمحے Terminal One سے وہ مانچسٹر کیلئے روانہ ہو جاتے اور میں انہیں دیکھتا ہی رہ جاتا۔ والد مرحوم کی وفات پر تعزیت کیلئے مانچسٹر سے خصوصی طور پر وہ چودھری منظور صاحب کے ہمراہ میرے غریب خانہ لندن تشریف لائے۔ اپنے مطالعاتی دورہ کا زیادہ وقت وہ مانچسٹر کی بزنس کمیونٹی اور گلاسگو میں شوکت بٹ مرحوم‘ بشیر مان مرحوم‘ بابائے امن اور تحریک نظریہ پاکستان کے روح رواں ملک غلام ربانی صاحب‘ علی احمد صوفی صاحب اور ہمارے پنجاب کے گورنر چودھری سرور صاحب کے ساتھ گزارتے۔ مانچسٹر میں حاجی رشید صاحب مرحوم‘ نصیر چودھری مرحوم‘ ممتاز بینکر غلام محی الدین صاحب‘ معروف بزنس مین چودھری منظور صاحب اور ہڈرزفیلڈ کے وحیداختر صاحب انکے حلقہ احباب میں آج بھی شامل ہیں۔
کونسل آف انٹرنیشنل افیئرز کے قیام کے سلسلہ میں Think Tank متعارف کروانے کیلئے انہوں نے اپنے مختصر دوروں کے دوران بھی یہاں کافی وقت دیا۔ آج یہ کونسل ایک مضبوط Intellectual عالمی تنظیم بن چکی ہے۔ اسداللہ غالب صاحب کی صحت اور سلامتی کیلئے میں اور انکے برطانیہ میں چاہنے والے سب دعاگو ہیں۔ میں پہلے بھی متعدد بار انہی سطور میں عرض کر چکا ہوں کہ برطانوی پاکستانی اپنے وطن عزیز کے حوالے سے بے حد حساس ہیں۔ برطانیہ میں رہنے کے باوجود پاکستان انگلینڈ کرکٹ میچ میں پاکستان کو شکست سے دوچار ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی طرح پاکستان کے معاشی‘ سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کو برداشت کرنا انکے بس میں نہیں۔ جس روز سے ایک مدرسے کے طالب علم کے ساتھ زیادتی کے مقدمہ میں ملوث ملزم عزیزالرحمان نے پولیس کے سامنے اعتراف جرم کیا ہے‘ یہاں بسنے والے پاکستانیوں کی ہی نہیں‘ گورے گوریوں کی ایک بڑی تعداد عجیب و غریب قسم کے انتہائی حساس نوعیت کے سوال پوچھ رہی ہے۔ یوں تو برطانیہ کے کھلے ڈُلّے ماحول میں بچوں سے زیادہی اور جنسی واقعات پر Zero Tolerance ہے مگر واقعات یہاں پھر بھی رونما ہو جاتے ہیں۔ پاکستان کے ہر مدرسے یا ہر استاد کو موردالزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا جس طرح مولوی‘ ملّا‘ پیش امام‘ عالم دین اور مدرسوں میں تعلیم دینے والے ہر استاد کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا ممکن نہیں‘ ہر مولانا‘ مفتی کو شک کی نگاہ سے دیکھنا درست نہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ مدرسوں‘ سکولوں اور کالجوں میں زیرتعلیم طلبہ کیلئے ایک غیرجانبدار ایسی تعلیمی اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا جاتا جس میں بچوں کی ہوسٹل رہائش‘ کلاس روم میں اساتذہ کا بچوں سے حسن اخلاق اور Random Search کا صاف و شفاف نظام ہوتا۔ ہم یہ بھول گئے کہ ہوسٹل کا طالب علم رات کو جب سو جاتا ہے تو اس کمرے یا ہال کی ایمرجنسی چابیوں کی بھی کسی کی ذمہ داری ہوتی ہے؟ موضوع چونکہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اس لئے میں اسے یہاں ہی سمیٹنا چاہوں گا ورنہ میرے ذرائع نے جو جو کچھ مجھے بتایا ہے‘ اس سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہے۔ اب اس خبر نے کہ پاکستان کو 27 میں سے 26 نکات پورے کرنے کے باوجود اس مرتبہ پھر ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نہیں نکالا گیا‘ مجھ سمیت برطانیہ میں بسنے والے اعشاریہ چھ ملین پاکستانیوں کا دل مغموم ہو گیا ہے۔ کہنے کو تو صرف یہ ایک نقطہ تھا مگر اس نقطے کے ساتھ Areas 5 میں کام کرنا بھی ابھی باقی ہے۔
یاد رہے کہ 2021ء اکتوبر میں ہونیوالے اجلاس میں پاکستان کو اب ہر حال میں ایک نقطہ اور دیگر پانچ Areas میں کام کرنا ناگزیر ہوگا۔ قوم 2022ء میں پاکستان کو گرے لسٹ سے باہر دیکھنے کی متمنی ہے تاکہ پانچ برس سے پاکستان پر لگائے اس داغ کو اب ہمیشہ کیلئے صاف کیا جاسکے۔