اسلام آباد (نامہ نگار) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہم امریکا کے ساتھ امن کے شراکت دار تو بن سکتے ہیں لیکن جنگ میں شراکت دار نہیں بن سکتے۔ جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا اس کی عزت نہیں کرتی، کبھی اس قوم نے کسی کے خوف سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کرنا، سارا پاکستان ان دلیر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، ہم سب ان کے ساتھ کھڑے ہیں، جب تک بھارت 5 اگست کا اقدام واپس نہیں لے گا ہم ان سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کریں گے۔ وزیراعظم نے اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی بھی دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجاویز ہیں تو ہم وہ سننے کے لیے تیار ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی زیر صدارت اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے مالی سال 22-2021کے بجٹ کی منظوری میں کردار ادا کرنے پر اپنی پارلیمانی پارٹی کا شکریہ ادا کیا۔وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 'لا الہ الا اللہ انسان میں غیرت دیتا ہے اور غیرت کے بغیر نہ کوئی انسان کوئی کام کرتا ہے اور نہ ہی کوئی ملک اٹھتا ہے۔ جب میں اپوزیشن میں بیٹھتا تھا اور پیپلزپارٹی بھی ہمارے ساتھ بیٹھی تھی تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف امریکا کی جنگ کا حصہ بن رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں پاکستانی ہوتے ہوئے مجھے سب سے زیادہ ذلت اس وقت محسوس ہوئی تھی۔ وزیراعظم نے کہا کہ یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم امریکا کی فرنٹ لائن سٹیٹ بن جائیں گے۔ اس وقت اسمبلی میں میری ایک نشست تھی مگر میں اس وقت بھی کہتا تھا کہ اس جنگ سے ہمارا کیا تعلق ہے، القاعدہ افغانستان میں ہے، مسلح طالبان افغانستان میں ہے، ہم نے کیا کیا ہے جو ہم ان کی جنگ کا حصہ بنیں۔ عمران خان نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میری قوم ہمیشہ کے لیے یہ سیکھے کہ کوئی قوم اس وقت آگے بڑھتی ہے جب وہ اپنی غلطیوں سے سیکھے، ہم نے اس وقت جو حماقت کی، میں ان میٹنگز میں شریک تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ امریکا بڑا ناراض ہے، اس کے لیے زخمی ریچھ کا لفظ استعمال کیا گیا کہ کہیں بھی ہاتھ ماردے گا۔ لہذا ہمیں اس کی مدد کرنی چاہیے لیکن ہم نے اس کے بعد جو کیا، کیا قوم کسی اور کی جنگ میں شرکت کرکے اپنے 70 ہزار لوگوں کی قربانی دیتی ہے؟۔ امریکی جنرل نے کتاب میں لکھا کہ ہم جانتے تھے کہ مشرف کمزور تھا تو ہم اس پر دبائوڈالتے رہے، مشرف سے جو کہا کرنے کا تیار ہوگیا، اپنے لوگ پکڑ کر گوانتاناموبے بھجوایا۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا کہ انہوں نے پیسے لے کر لوگوں کو بھجوایا، مگر کس قانون کے تحت؟۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر حکومت ہی اپنے لوگوں کی حفاظت نہیں کرتی تو ان کی حفاظت کون کرے گا؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ بات یہاں تک نہیں رکی قبائلی علاقے میں تورا بورا کے بعد القاعدہ آگئی، قبائلی علاقے میں اوپن بارڈر تھا ہمیں انہوں نے حکم دیا کہ وہاں اپنی فوج بھیجیں اور چند سو القاعدہ کے لیے ہم نے قبائلی علاقے میں اپنی فوج بھیج دی۔ میں نے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی مخالفت کی تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا، جب میں کہتا تھا کہ افغانستان کا کوئی فوجی حل نہیں تو طالبان کا حامی کہا گیا، وہ ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا ہمیں معلوم ہی نہیں تھا کہ ہمارا دوست کون ہے اور دشمن کون؟۔ وزیراعظم نے سوال کیا کہ30سال سے لندن میں ہمارا ایک دہشت گرد بیٹھا ہوا ہے، ہم اسے ڈرون ماریں گے تو کیا برطانیہ اجازت دے گا؟ اگر ہم لندن میں ڈرون حملہ کرتے ہیں تو اس کی اجازت دی جائے گی؟ وہ اجازت نہیں دیں گے تو ہم نے اجازت کیوں دی؟۔ لوگوں سے جھوٹ کہا گیا کہ ہم ڈرون حملوں کی مذمت کرتے ہیں، امریکی سینٹ میں جب ایڈمرل سے پوچھا گیا کہ آپ پاکستان میں ڈرون حملے کیوں کررہے ہیں جب ان کی حکومت مذمت کررہی ہے تو انہوں نے کارل لیون کو جواب دیا تھا کہ ہم حکومت پاکستان کی اجازت سے کررہے ہیں اس پر انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی حکومت دوغلی کیوں ہے؟۔ ہم نے اپنے آپ کو ذلیل کیا، امریکا کو کیوں برا بھلا کہیں جب آپ نے خود اجازت دی ہو، آپ ان کی مدد کررہے ہیں، آپ کے لوگ مررہے ہیں ان کے لیے اور وہ آپ ہی پر بمباری کررہے ہیں دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ جب امریکی نیوی سیلز نے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا تو اوورسیز پاکستانیوں کو بہت ذلت ملی، پھر سے کہتا ہوں جو قوم اپنی عزت نہیں کرتی تو دنیا اس کی عزت نہیں کرتی، مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان، امریکا کو فضائی اڈے دے گا؟ میں ان سے یہ پوچھوں کہ جب ہم نے اتنی خدمات پیش کیں، ہمارے 70 ہزار لوگ مارے گئے، اپنے ملک کے 150 ارب ڈالر کا نقصان کردیا، کیا انہوں نے ہماری تعریف کی؟۔ ہماری قربانیوں کو تسلیم کیا؟ بلکہ پاکستان کو برا بھلا، دوغلا کہا اور افغانستان جنگ میں ناکامی کا ملبہ بھی ہم پر ڈالا، یعنی ہماری تعریف کرنے کے بجائے ہمیں ہی برا بھلا کہا گیا تو اس سے ہم نے ایک سبق سیکھا کہ کبھی کسی کے خوف سے اپنی خودمختاری پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ عمران خان نے مزید کہا کہ افغانستان کے حوالے سے ہمارے لیے اب واقعی بڑا مشکل وقت آرہا ہے، شکر ہے کہ امریکا نے تسلیم کرلیا کہ افغانستان کے تنازع کا فوجی حل موجود نہیں اگر وہ پہلے مان لیتے تو اتنا خون نہ بہتا ۔اگر ہم متحرک ہوتے اور پراعتماد حکومت کھڑی ہوتی اور کہتی کہ آپ (امریکا) غلط کررہے ہیں تو ہم ان کو (افغانیوں) بھی بچالیتے اور دوسری طرف امریکا بھی بہتر وقت پر جاسکتا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تو امریکہ پاکستان سے چاہتا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کے لیے تیار کریں، ہمارے پاس کیا لیوریج ہے؟ سوائے اس کے کہ ان کے خاندان یہاں بسے ہوئے ہیں، ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ اگر آپ فوجی حل کی جانب جائیں گے تو خانہ جنگی اور طویل ہوگی جس میں افغانستان میں تباہی ہوگی اور اس کے بعد پاکستان بھی متاثر ہوگا۔ میں کہہ چکا ہوں کہ ہمارا مفاد یہ ہے کہ افغانستان میں امن ہو، ہم افغانستان میں کوئی تذویراتی گہرائی نہیں چاہتے، جو افغانستان کے لوگ چاہتے ہیں ہم ان کے ساتھ ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے متعلق وزیراعظم نے کہا کہ 5اگست 2019سے پہلے بھی بھارتی حکومت کشمیریوں پر ظلم کررہی تھی، آج اس پلیٹ فارم سے اپنی پوری قوم کی طرف سے کشمیریوں کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں، سارا پاکستان ان دلیر کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہے، جب تک بھارت 5 اگست کا اقدام واپس نہیں لے گا ہم ان سے سفارتی تعلقات بحال نہیں کریں گے۔انہوں نے کہ اپوزیشن کو انتخابی اصلاحات پر بات چیت کی دعوت دیتے ہوئے کہامیں درخواست کروں گا کہ یہ حکومت و اپوزیشن کی بات نہیں ہے یہ پاکستان کی جمہوریت کا مستقبل ہے۔آئیں مذاکرات کریں۔عمران خان نے کہا کہ کرکٹ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ نیوٹرل امپائر کھڑے کیے تھے اور اب یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہم الیکشن لڑیں اور کسی کو یہ فکر نا ہو کہ دھاندلی سے ہرادیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پہلے دن جب میں قومی اسمبلی میں تقریر کرنے کھڑا ہوا تھا تو اپوزیشن نے تقریر نہیں کرنے دی تھی اور انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے، اگر الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو انہیں بتانا چاہیے تھا کہ کیسے ٹھیک نہیں ہوئے۔ جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ الیکشن ٹھیک نہیں ہوئے تو ان کے میڈیا اور عوام نے کہا کہ اس بات کا ثبوت دیں۔اپوزیشن سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مسئلے کا صرف ایک ہی حل ہے پروٹو ٹائپ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کیونکہ جب ووٹنگ ختم ہوتی ہے تو بٹن دباتے ہی نتائج فورا سامنے آجاتے ہیں، اس طرح ڈبل اسٹامپس، تھیلیاں کھلے ہونے کے مسائل ختم ہوتے ہیں اور جو بھی اعتراض کرنا چاہے وہ اٹھاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اگر اپوزیشن کے پاس کوئی اور تجویز ہے تو ہم وہ سننے کے لیے تیار ہیں۔وزیر اعظم نے کہا کہ بجٹ پاکستان کے حوالے سے میرے وژن کے مطابق ہے،انہوں نے مزید کہا کہ اگر اصلاحات نہیں کی جائیں گی تو یہ مسئلہ ہر الیکشن میں آئے گا۔ میں متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین کا مشکور ہوں کہ انہوں نے ہمیں ڈیفالٹ سے بچایا۔ عمران خان نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط مشکل ہونے کی وجہ سے عوام کو تکلیف ہوئی۔ عمران خان نے کہا کہ سٹیٹ بینک نے صنعتوں کو مراعات دیں ،احساس پروگرام کے ذریعے 2 کروڑ سے زائد گھرانوں کی مالی مددکی گئی۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ فصلوں کی ریکارڈ پیداوار کی ایک بڑی وجہ حکومت کا فیصلہ تھا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کاشتکاروں کو وقت پر مکمل معاون قیمت ادا کی جائے۔ پنجاب میں کسان کارڈ متعارف کروارہے ہیں ۔
اسلام آباد (نامہ نگار/چوہدری شاہد اجمل) قو می اسمبلی نے 2018-19 سے 2020-21تک تین سالوں کے دوران کل 1248ارب روپے کی ضمنی گرانٹس کی کثرت رائے سے منظوری دے دی۔ منظور کی گئیں ضمنی گرانٹس میں 2018-19کی 170ارب روپے ،2019-20 کی 590ارب روپے ضمنی گرانٹس اور 2020-21 کی 488 ارب روپے کی ضمنی گرانٹس شامل ہیں۔ جبکہ وزیر خزانہ شو کت ترین نے ضمنی گرانٹس پر بحث سمیٹتے ہوئے کہا کہ آئین کے تحت وفاقی حکومت کے پاس ضمنی گرانٹس کے تحت اخراجات کا اختیار ہے۔ ضمنی گرانٹس صرف پی ٹی آئی کی حکومت نے نہیں شروع کی ماضی کی حکومتیں بھی لیتی رہی ہیں۔ ہمیں اپوزیشن والے کہتے ہیں کہ یہ غلط کام ہو رہا ہے تو پھر یہ کھربوں میں کیوں ضمنی گرانٹس لیتے رہے ہیں۔ ہمیں ضمنی گرانٹس کی یہ روایت ختم کرنی چاہیے اور فنانشل ڈسپلن کو بہترکرنا چاہئے۔ وزیراعظم کو بجٹ کے دوران خدمات سرانجام دینے والے مختلف محکموں کے ملازمین کے لئے تین معاوضہ جات کی سفارش کی ہے، ضمنی گرانٹس پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے راہنما رانا تنویر حسین نے کہاکہ پیچھے سے کوئی کہہ رہا ہے کہ شاہ محمود قریشی جیسا دوست ہو تو دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔ ضمنی گرانٹس بیڈ گورننس کی ایک مثال ہے۔ پتہ لگ جائے گا کہ یہ بجٹ کیا مصیبتیں لائے گا۔ شازیہ مری نے کہا کہ ایک طرف کفایت شعاری کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف ضمنی گرانٹس لی گئی ہیں، یہ بیڈ بجٹ کی مثال اور اس حکومت کے قول و فعل میں تضاد ہے ۔ شاہدہ اختر علی نے کہاکہ پی ڈی ایم کا چار جولائی کو جلسہ ہوگا لیکن کسی قسم کی خبر نہیں چلتی۔ وزارت خارجہ کس ضمن میں اربوں روپے کا ضمنی بجٹ مانگ رہا ہے۔ احسن اقبال نے کہاکہ سپلیمنٹری بجٹ کوئی صحتمند سرگرمی نہیں ہے، نیب کے لئے ساڑھے پانچ ارب روپے کی سپلیمنٹری گرانٹ کس لئے دی گئی، نیب کو حکومتی انتقامی کارروائیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہاکہ جن وزارتوں کے لئے سپلیمنٹری گرانٹس مانگی جارہی ہیں ان کی کارکردگی کیا ہے، شمیم آرا نے ڈکٹر شہزاد سفیر بلوچ،محسن داوڑ، قادر خان مندوخیل، صلاح الدین ایوبی اور دیگر اپوزیشن ارکان نے بھی ضمنی گرانٹس کی منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے ہمیشہ ضمنی بجٹ کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ضمنی بجٹ پہلے ای سی سی سے منظور کراتے ہیں بعد میں اس کی کابینہ سے منظوری لیتے ہیں، بہتر مالیاتی انتظام و انصرام کے لئے مل کر کوششیں کرنا ہوں گی اور مالیاتی نظم و نسق کو بہتر بنانا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں ایک بار پھر حکومتی اور اپوزیشن اراکین آمنے سامنے آ گئے۔ شاہد خاقان عباسی کی تقریر کے دوران حکومتی ارکان نے شور شرابہ کیا۔ ایک حکومتی رکن کھڑا ہوا تو شاہد خاقان عباسی نے کہا آ جاؤ آ جاؤ۔ سپیکر نے احتجاج کرنے والے اراکین کو بٹھا دیا۔ شاہ محمود قریشی کی تقریر کے دوران اپوزیشن کے شور شرابے کے باعث پر سپیکر نے مائیک مولانا اسعد محمود کو دیدیا۔ شاہ محمود قریشی کے بیٹھ جانے کے بعد دونوں طرف سے اراکین بغیر مائیک کے بات کرتے رہے۔ شاہ خاقان عباسی کی تقریر کے دوران حکومتی اراکین نے احتجاج اور ہنگامہ کیا۔ اجلاس کے دوران سپیکر کی جانب سے شاہ محمود قریشی کو مائیک دینے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا۔ سپیکر ے کہا مجھے ڈکٹیٹ نہ کریں۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے قومی اسمبلی کے بدھ کے روز ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں بریل سسٹم پر منتقل ہونے والی آئین پاکستان کی کاپی ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن اس ایوان کے لیے ایک تاریخی نوعیت کا حامل دن ہے۔