سعودی عرب اور پاکستان میں ہر سطح پر باہمی اعتماد، خیر سگالی ، محبت اور غیر معمولی برادرانہ تعلقات استوار رہے ہیں ۔ امت مسلمہ کے مفادات کی نگہبانی اور اتحاد ان مضبوط برادرانہ تعلقات کی اہم بنیاد رہی ہے۔ حجاز مقدس کی خصوصی کشش دونوں برادر ممالک کے عوام کو شیرو شکر کرنے میں ایک روحانی وجہ ہے۔ عوام کے اتحاد اور محبت سے پھوٹنے والے اس رشتے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کی قیادت کی سطح پر پختہ مفاہمت اور مشترکہ مفادات کے لئے باہمی حمایت موجود ہے۔سعودی عرب ہمیشہ سے پاکستان کا بڑا حامی وپشت بان رہا ہے۔ تاریخ کے مختلف نازک مراحل پر سعودی عرب نے بڑے بھائی کی طرح پاکستان کو کثیر معاشی تعاون اور ترقیاتی امداد فراہم کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔ سابق وزیراعظم عمران خان اقتدار میں آئے تو بھی یہ سعودی عرب ہی تھا جس نے مدد کی پکار پرفوراً لبیک کہا۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا، جہاں خسارے کی شرح مالی 2018-2017 کے لئے جی ڈی پی کے 6.6فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
سعودی عرب نے پاکستان کو درپیش سنگین اور فوری مالی امداد کا فوری ادراک واحساس کیا اور فوری طور پر 6 ارب ڈالر مالیت کے پیکیج کا اعلان کیا گیا۔ اس رقم میں سے نصف غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے تھی تاکہ پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کیا جائے۔ معاشی تجزیہ نگاروں کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی بھی شرط تھی کہ زرمبادلہ کے ذخائر کو اس سطح پر لایا جائے جہاں پاکستان پر واجب الاداقرض ادائیگیوں کے توازن کو محفوظ بنایا جاسکے تاکہ مزید معاشی تعاون کی راہ ہموار ہوسکے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹالا جاسکے۔ فروری 2019 میں سعودی ولی شہزادہ محمد بن سلمان کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں مختلف شعبہ جات میں 20 ارب ڈالر کی خطیر سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ واضح اور معلوم حقیقت ہے کہ جب کوئی ملک آپ کو مالی تعاون فراہم کرتا ہے، یا غیر ملکی ذخائر کے توازن کے لئے نقدرقوم دیتا ہے تو مروجہ طریقہ کار کے تحت یہ اقدام عمل میں آتا ہے۔ ایک خاص مدت تک یہ پیشکش متعین ہوتی ہے۔ قرض اور ترقیاتی امداد کی مد میں جمع رقوم متعلقہ شرائط کے مطابق واپس کی جاتی ہے۔مقام شکر ہے کہ پاکستان میں تبدیلی حکومت کے بعد وزیراعظم شہباز شریف نے بھی گذشتہ ماہ معاشی استحکام کے لیے سعودی عرب کا دورہ کیا اور پاکستان کو دیا گیا قرضہ ری شیڈول کرنے کیدرخواست کی گئی جس پر سعودی
قیادت نے آمادگی کا اظہار کیا اور اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ وہ پاکستان اور اس کی معیشت کی مسلسل حمایت جاری رکھے گا نہ صرف 3 ارب ڈالر کی واپسی کی مدت میں توسیع کی جائے گی بلکہ ان میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی فنانسنگ بڑھانے کے امکانات تلاش کیئے جائیں گے۔ دونوں ممالک کے نجی شعبے کے درمیان مل کر سرمایہ کاری کرنے کے امکانات بڑھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایات پر دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کو مشترکہ سرمایہ کاری کے وسیع مواقع فراہم کرنے حائل رکاوٹوں کو دور کرنے دونوں ممالک میں مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے ماحول ساز گار بنانے اور بزنس ٹو بزنس اجلاس کا انعقاد کرنے کے لیے صوبائی اور مرکزی حکومت نے سعودی عرب کے صف اول کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی ۔ بیرونی سرمایہ کاری کسی بھی ملک کی معیشت کے استحکام کے لیے ریڈ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے سعودی عرب کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان پہنچ چکا ہے وفد اپنے دورے کے دوران مختلف چیمبرز کا دورہ کرے گا اعلیٰ سرکاری وغیر سرکاری تقریبات میں شرکت کرے گا ۔وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعظم ہائوس میں وفد کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں اراکین کابینہ مشیران وزرائ ممبران سینٹ وقومی اسمبلی سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نواف سعید المالکی پاکستان کی نمایاں کاروباری شخصیات چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدور نے شرکت کی اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ سعودی عرب کی قیادت اور عوام پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں اور پاکستان کو اپنا دوسرا گھر کہتے ہیں تو ہمیں اس پر دلی خوشی ہوتی ہے 75 سال سے سعودی عرب پاکستان کی سرپرستی کرتا آرہا ہے۔ اور ہر کڑے وقت میں دنیا میں سب سے پہلے اور بغیر کسی مطالبے کے سعودی عرب نے پاکستان کی مدد کی ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک کے سرمایہ کار مشترکہ سرمایہ کاری کے لئے آگے بڑھیں حکومت پاکستان اپنے بھائیوں کو ہر سہولت فراہم کرنے پر تیار ہے سعودی وفد کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے قدرتی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے اور کئی ایسے شعبے موجود ہیں جن میں سرمایہ کاری کے خواہاں ہے امید ہے کہ دونوں طرف سے تجارتی وفود کے تبادلے بڑے معاون ثبوت ہوں گے سعودی سفیر نواف سعید المالکی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی شراکت داری کے لیے یہ دورہ نیک شگون ہے سعودی حکومت پاکستانی سرمایہ کاروں کو بھی سعودی عرب میں خوش آمدید کہتی ہے پاکستان کے سیاسی ومعاشی استحکام کے لیے ہمیشہ سے مثبت کردار
کے حامل رہے ہیں اور اب بھی پاکستان کو سیاسی
معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔
اعلیٰ سطحی سعودی وفد پاکستان کے تیسرے بڑے چیمبر فیصل آباد کا دورہ بھی کرے گا جہاں پر فیصل آباد چیمبر نے گروپ لیڈر میاں محمد ادریس اور عاطف منیر شیخ صدر چیمبر کی قیادت میں سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان مشترکہ سرمایہ کاری کے لیے بزنس ٹو بزنس میٹنگ کا اہتمام کررکھا ہے۔سی پیک کے مختلف منصوبوں میں فیصل آباد کی اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک کے سرمایہ کار فیصل آباد میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں جب بھی ان سے بات ہوتی ہے تو وہ ٹیکسٹائل فوڈ ،فروٹس، چاول، سبزیاں اور گوشت امپورٹ کرنا چاہتے ہیں ۔جن کا حجم اتنا ہے کہ کوئی پاکستانی کمپنی ان کی ڈیمانڈ پوری نہیں کرسکتی لہٰذا پاکستان میں بھی مختلف کمپنیوں کو مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اب 40 پاکستانی کمپنیاں کام کررہے ہیں جن کی تعداد آئندہ سال 100 سے زائد متوقع ہے۔ دیگر شعبوں میں فیصل آباد میں فیکٹریاں لگانے کو تیار ہیں لہٰذا حکومت فیصل آباد میں موجود مواقع سے مستفید ہونے کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے آسانیاں پیدا کرے اسی طرح سعودی عرب کی معاشی ترقی اور اقتصادی استحکام کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھنے والے نیوم سٹی پراجیکٹ کے مختلف بین الاقوامی منصوبوں اور سعودی عرب کے ویڑن 2030 میں بے پناہ فوائد حاصل کرسکتا ہے پاکستان کے پڑھے لکھے اور ہنر مند نوجوان اربوں ریال کا زرمبادلہ لاسکتے ہیں۔
سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کاروبار کے لئے جو فضاء بننے جارہی ہیں شاید یہ پہلے کبھی نہ تھی گذشتہ چند سالوں میں نجی شعبوں میں بھی دونوں طرف کے سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے 2019 میں فیصل آباد چیمبر کے صدر رانا سکندر اعظم اور بحیثیت چیئرمین مڈل ایسٹ کمیٹی میری قیادت میں فیصل آباد چیمبر کے 30 رکنی وفود نے مکہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا وزٹ کیا تھا اور مکہ چیمبر کے 35 ہزار ممبران تک ہمارا یہ پیغام پہنچا تھا سرکاری سطح پر رابطوں کی اپنی جگہ اہمیت لیکن پرائیویٹ سطح پر وفود کے تبادلے زیادہ موثر ثابت ہورہے ہیں لہٰذا حکومت سے درخواست ہے کہ سعودی سرمایہ کاروں کو مکمل سکیورٹی انتظامات کے ساتھ سیالکوٹ کراچی، لاہور، فیصل آباد، پشاور، گوجرانوالہ ودیگر شہروں میں پاکستان کی پرائیویٹ اداروں کے وزٹ کا موقعہ فراہم کرے اور پاکستانی مصنوعات کا مشاہدہ کرنے دے۔اللہ کرے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات مزید مضبوط موثر اور نتائج کن ثابت ہوں کیوں کہ یہ پاکستان کے معاشی استحکام کے لیے ناگزیر ہیںاور سعودی عرب کی قیادت کی خواہش بھی میں آخر میں پاکستان میں سعودی عرب کے سفیر نواف بن سعید المالکی کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں ۔( جاری ہے)
گذشتہ دنوں میری ان سے ایک نشت ہوئی۔ جسمیں میں نے ان کو پاکستان کا سعودی عرب میں سفیر پایا وہ پاکستان کے سیاسی ومعاشی حالات پر متفکر رہتے ہیں۔اور ہر معاملے میں معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے دونوں ممالک میں پل کا کردار ادا کررہے ہیں۔
اور موجودسعودی سرمایہ کاروں کے دورے کو کامیاب اور ثمر آور بنانے کے لیے بڑی محنت کررہے ہیں اور دنیا بھر میں جہاں بھی جاتے ہیں پاکستان کا ایک خوب صورت چہرہ پیش کرتے ہیں اور پاکستان کی ایسے وکالت کرتے ہیں جسے وہ پاکستان کے سفیر ہوں ۔امید ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے سرمایہ کار دونوں ممالک میں موجود مشترکہ سرمایہ کاری کے امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔یہاں پر اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری ہے کہ سعودی عرب نے سرمایہ کاروں کو سعودی عرب کے تمام شہروں میں رسائی کے لئے بہت سی مختلف سہولتیں فراہم کردی ہیں۔ اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کے پاس یورپ برطانیہ امریکہ کا ویزہ موجود ہے وہ بغیر ویزہ کے سعودی عرب کا سفر کرسکتے ہیں اور اب عمرہ ویزہ پر بھی پورے سعودی عرب میں جاسکتے ہیں پاکستان کو دنیا کے ان 5 ممالک میں بھی شامل کیا گیا ہے جن کے حجاج روڈ ٹو مکہ پراجیکٹ کی بدولت اپنے ہی ملک میں امیگریشن کروا کر سعودی عرب روانہ ہوسکتے ہیں اسی طرح سال محدود حج کا فیصلہ کیا گیا کہ انڈونیشیا کے بعد پاکستان سے سب سے زیادہ حجاج فریضہ حج کی سعادت حاصل کریں گے۔
پاک سعودی عرب، دو بااعتماد بھائی، دو سٹرٹیجک شراکت دار(1)
Jul 01, 2022