1984 میں آپریشن بلیو سٹار کے نتیجے میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ و دیگر خالصتانی رہنمائوں کو مارنے کے بعد دہلی سرکار نے ایک منصوبہ بندی کے تحت سکھوں میں علیحدہ مملکت کی خواہش کو مختلف ہتھ کنڈوں سے مانند کیا اور کچھ عرصہ قبل تک یہ تاثر خاصا عام ہو گیا تھا کہ شاید خالصتان کی تحریک اب ایک لمبے عرصے تک دوبارہ زور نہ پکڑ سکے، مگر 2022 میں اس تحریک نے جیسے شدت پکڑی اس نے بھارتی حکمرانوں میں سخت تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔ کچھ روز قبل پنجاب کے سنگرور میں ہونیوالے لوک سبھا کے ضمنی انتخابات میں سمرن جیت سنگھ مان جیسے خالصتانی رہنما نے عام آدمی پارٹی، بی جے پی ، کانگرس اور اکالی دل کو پچھاڑا اور اپنے دم پر یہ انتخاب جیت کر دکھایا جس سے ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ بھارتی زیر قبضہ پنجاب میں علیحدگی پسند تحریک کس قدر زوروں پر ہے۔ یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ اپنی فتح کے بعد ہندوستانی میڈیا سے بات کرتے سردار سمرن جیت نے بھارتی مسلمانوں اور نہتے کشمیریوں پر دہلی سرکار کی جانب سے کئے جانے والے مظالم کی مذمت کی اور اس موقع پر سدھو موسے والا اور دیپ سدھو کو خراج عقیدت بھی پیش کیا۔
مبصرین کے مطابق دہلی کے حکمران محض مقبوضہ کشمیر میں نہتے مسلمانوں کے خلاف ہی بدترین بربریت روا نہیں رکھے ہوئے بلکہ بھارت کے دیگر حصوں میں بھی اقلیتوں کے جان و مال کسی طرح محفوظ نہیں۔ آئے دن گئو ہتیا کے نام پر بے گناہ مسلمانوں سے تشدد کر کے زندہ رہنے کا بنیادی انسانی حق چھین لیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوستانی سکھوں پر بھی ہر طرح کے مظالم ڈھائے جا رہے ہیں جس کی بدولت
تحریک خالصتان بھی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ خالصتان تحریک کا تذکرہ کرتے اگر اس دلچسپ رجحان کا ذکر کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا، مبصرین کے مطابق سکھ برادری میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے جس میں آزادی کی حمایت کیلئے سکھ موسیقی (بھنگڑا، پنجابی ریپ) کو استعمال کیا جارہا ہے۔علیحدہ وطن کے حوالے سے دباؤ کے خلاف سینہ سپر ہونا ہندوستانی پنجاب میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ سکھ پہلی ہی پوری دنیا میں پنجابی بھنگڑا اور موسیقی کی مشہور قسم ریپ کے علمبردار ہیں اور وہ اپنی ثقافت اور اپنی تاریخ کو یاد رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں، اسی لئے اپنی موسیقی کے ذریعے خالصتان کی بات کرنے والے نامور گلوکار سدھو موسے والا کو پلاننگ کے تحت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ دوسری جانب پورے بھارت میں جنونی ہندوئوں کی جانب سے سکھ برداری پر زمین تنگ کی جا رہی ہے، اب اترپردیش میں بھی 5000 سکھ خاندانوں کو اپنی قیمتی اراضی سے انخلا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اکال تخت کے سابقہ جتھے دار گیانی پورن سنگھ نے بجا طور پرکہا ہے کہ سکھ قوم کو کسی رد عمل کا مظاہرہ کرنے کی بجائے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے اور دہلی کے حکمرانوں نے اپنی درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح ہندوئوں اور سکھوں کے مابین نیا ’’ خونی رشتہ ‘‘ قائم کیا ہے اس کا نتیجہ ’’ تاریخ ‘‘ اور ’’ ست سری اکال واہگرو ‘‘ پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہندو جنونیوں کی ذہنیت اور سکھوں کے بارے میں ان کے معاندانہ عزائم کے بارے میں بابا گرو نانک دیو جی بہت پہلے کہے گئے تھے کہ ‘‘ نال کراڑاں دوستی کوڑی ہائے ہائے ‘‘یعنی ہندئوں سے دوستی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا اور ہمیشہ برائی پیدا کرتا ہے ۔ واضح رہے کہ سکھ مذہب کے صحیفے ’’ جپ جی صاحب ‘‘ میں گرو نانک جی کا یہ قول صاف لفظوں میں موجود ہے ۔
سکھ دانشور اس امر کا بر ملا اظہار کر تے آئے ہیں کہ بھارت کی آزادی کے تھوڑے عرصے بعد ہی سکھ خواص و عوام کو احساس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ انھوں نے کانگرسی رہنمائوں کی باتوںکے بہکائوے میں اگر چہ ہندوستان میں شمولیت تو اختیار لی مگر سکھ قوم کا مستقبل کسی بھی حوالے سے بھارت میں محفوظ نہیں لہذا انھوں نے مختلف سطحوں پر پہلے الگ پنجابی صوبے کے قیام اور بعد میں بھارت سے آزادی کی تحریک شروع کر دی اور یہ تحریک کسی فرد واحد یا گروہ کی جانب سے نہیں بلکہ سکھوں کی واحد نمائندہ تنظیم ’’ گرودوارا پربندھک کمیٹی ‘‘ اور اس کے سیاسی ونگ ’’ اکالی دل ‘‘ کے زیر سایہ شروع ہوئی ۔
البتہ اس کے بعد مشرقی پنجاب میں ہندوئوں کے آلہ کار پولیس چیف ’’ کنور پال سنگھ گل ‘‘ کے ہاتھوں بے گناہ سکھوں کو ختم کرنے کے بعد بھارت کی ہندو قیادت نے بظاہر اطمینان کا سانس لیا تھا اور یہ سمجھ لیا گیا کہ ہندو بربریت کی بنیاد پر سکھوں کی مذہبی ، معاشرتی اور سیاسی زندگی کو افراتفری کے ایسے محیب غار میں دھکیلا جا چکا ہے جہاں سے اب کوئی حریت پسند تحریک بر آمد نہیں ہو گی ۔ مگر اب سکھ نوجوان اپنے پیغامات ، گانوں اور پوسٹس کے ذریعے بھنڈرانوالہ کو ’’ سن آف دی سینچری ‘‘ قرار دے رہے ہیں اس نے بھارتی حکمرانوں کی نیندیں حرام کر دیں ۔ ہندئوں کے ہاتھوں ہزاروں سکھوں نے جان دے کر گویا ان کے ساتھ’’ خونی رشتہ ‘‘ تو قائم کر ہی لیا ہے ، اب بھائی رنجیت سنگھ ، سمرن جیت سنگھ مان ، گیانی پورن سنگھ ، یا کسی دوسرے کی زیر قیادت ہندوئوں اور سکھوں کے مابین قائم ہوا یہ نیا ’’ رشتہ ‘‘ کیا رنگ لاتا ہے ۔ اس کا صحیح فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا مگر یہ تقریباً طے ہے کہ بھارت سرکار اور سکھوں کے مابین پھر نیا محاذ کھلنے والا ہے ۔ یہ اندازے اور پیش گوئیاں کہاں تک صحیح یا غلط ثابت ہوں گی ، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔