قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2022-23 ء کے 9502 ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ سے متعلق فنانس بل میں ترامیم منظور کرتے ہوئے متعدد نئے ٹیکس بھی لگا دیئے گئے ہیں جبکہ بعض ٹیکسوں کی شرح میں رد و بدل کیا گیا ہے۔وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ فنانس بل میں کی جانے والی ترامیم آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے معاہدے کے مطابق ہیں۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہاکہ حکومت فی الحال پٹرولیم لیوی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ، فنانس بل میں ترمیم کے بعد حکومت ایک روپے سے لے کر پچاس روپے فی لٹر تک پٹرولیم ٹیکس عائد کرسکتی ہے ۔جس کے بعد پٹرولیم مصنوعات پر 50 روپے لیوی عائد کرنے کی منظوری دے دی گئی ۔
قومی معیشت کو درست ٹریک پر چلانے اور عوام کی بے لوث خدمت کرنے کی دعویدار حکومت نے اپنے قیام کے صرف تین ماہ کے ابتدائی عرصہ ہی میں مہنگائی کے اس قدر سونامی اٹھا دئیے ہیں کہ جنہوں نے فی الحقیقت عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں پر مشتمل سابق حکومت کی طرف سے جب تیل کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا تو اس حکومت میں شامل سیاستدانوں نے زبردست احتجاج کرتے ہوئے اسے عوام دشمن حکومت کے القاب سے نوازا ، اس کے خلاف مارچ کیے، احتجاجی مظاہرے کیے اور جلوس نکالے۔ اپنی احتجاجی تقاریر میں موجودہ وزیر اعظم اور ان کے رفقاء شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال اور دیگر یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ اقتدار میں آ کے مہنگائی پر نہ صرف قابو پا لیں گے بلکہ عوام کو ریلیف بھی دیں گے لیکن جب عمران خان کی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد وہ خود ایوانِ اقتدار میں آئے تو ان کی آمد کے فوری بعد عوام کو حکومت کی طرف سے جو پہلا تحفہ ملا وہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا تھا۔جس کے حوالے سے وزیرا عظم شہباز شریف کا یہ دعویٰ تھا کہ چند دنوں میں ختم کر دی جائے گی لیکن ختم ہونا تو دور کی بات اس کا دورانیہ مسلسل بڑھتا ہی چلا گیا اور آج تک گرمی کے ستائے لوگ لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ اس پر طرفہ تماشا یہ کہ بجلی کے ریٹس بھی بڑھا دئیے گئے اور صرف دو روز قبل 7.9 روپے فی یونٹ ریٹ بڑھا کر عوام کی برداشت کا مزید امتحان لینا شروع کر دیا ۔اسی طرح پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی ریکارڈ اضافہ کردیا گیا ہے اور جو کسر رہ گئی تھی وہ گزشتہ روز 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کرنے کا عندیہ دے کر نکال لی گئی ہے۔گیس، آئل ، گھی سمیت اشیائے خورو نوش کی قیمتیں بھی اسی تناسب سے بڑھ چکی ہیں۔ عمران خان کی حکومت میں جو قرضے لئے گئے اور آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا گیا اس کو موجودہ حکومت نے سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور خود انحصاری کی پالیسی اختیار کرنے اور کشکول توڑنے کا خوشنما وعدہ بھی کیا تھا لیکن افسوس مذکورہ معاہدہ اور نئی عائد کردہ شرائط تا ہنوز پردۂ اخفا میں ہیں۔ نہ تو ایوانِ نمائندگان میں اس پر کوئی گفتگو کی گئی اور نہ ہی عوام کو اعتماد میں لیا گیا ہے۔ تاہم اس کے برعکس عام آدمی پر جس طرح ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ڈال کر اسے زندہ درگور کر دیا گیا ہے اس کا حکومت کے پاس کوئی جواز ہے نہ جواب۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی میں بجٹ کی منظوری ایک رسمی کارروائی سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ ماورائے بجٹ ہی بہت سارے حکومتی اقدامات ایسے اٹھالئے جاتے ہیں جن کا بجٹ میں کہیں ذکر تک نہیں ہوتا ۔سال بھر پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کے بعد بجٹ کی حیثیت بے معنی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب بجٹ کی باضابطہ منظوری کے بعد جو مہنگائی کے طوفان اٹھیں گے ان کے اثرات جب ہر شعبۂ زندگی پر مرتب ہوں گے تو عوام الناس سے حکومت کے لیے کلمۂ خیر کی کیونکر امید کی جا سکتی ہے۔ بجا کہ گزشتہ حکومت نااہل اور ناتجربہ کار تھی اس لیے ناکام ثابت ہوئی لیکن موجودہ حکومت تو تجربہ کار، اہل ، باصلاحیت اور آزمودہ کار سیاستدانوں اور ماہرین پرمشتمل ہے۔ اس نے اب تک کیا تیر مارا ہے ۔ الٹا مہنگائی سے بدحال عوام کو مزید مہنگائی کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ قرضوں کے ساتھ ساتھ ناقابلِ قبول شرائط بھی بہ تسلیم و رضا قبول کر لی گئی ہیں جن کے منفی اثرات براہِ راست عوام پر پڑ رہے ہیں۔ موجودہ معاشی ٹیم کی کارکردگی کا اندازہ اس ماہانہ اکنامک آئوٹ لک رپورٹ سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو دو روز قبل وزارتِ خزانہ کی طرف سے جاری کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق جولائی سے اپریل بجٹ خسارہ 4.9 فیصد رہا۔ ایف بی آر نے 6 ہزار ارب روپے کے ٹیکس محاصل اکٹھے کیے ۔11 ماہ میں ترسیلاتِ زر 6.3 فیصد اضافے سے 28.4 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 15.2 ارب ڈالر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ مذکورہ بالا معاشی اشاریے اس حقیقت کی عکاسی کر رہے ہیں کہ حکومت ابھی تک معاشی گرداب سے باہر نہیں نکل پا رہی۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وفاقی حکومت نے روس سے تیل کی درآمدپر غور شروع کردیا ہے ۔ وزارت ِ توانائی نے خط لکھ کر اس حوالے سے آئل کمپنیوں سے تفصیلات اور تجاویز طلب کرلی ہیں ۔حکومت کی یہ کوشش قابل ِ قدر ہے اس ضمن میں عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے ۔
اندریں حالات یہ وقت ہے کہ حکومت اپنی ترجیحات پر نظرثانی کرے۔ ہم نے آج تک ’’چادر کے مطابق پائوں پھیلانے ‘‘کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اخراجات ہمارے وسائل سے کئی گنا بڑھتے چلے گئے۔ ہمیں اب اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ آئی ایم ایف سے جن شرائط پر قرضے کی اگلی قسط وصول کی جا رہی ہے ان کے نتیجے میں پاکستان کو وقتی طور پر تو مالیاتی حوالے سے ریلیف مل جائے گا لیکن آئی ایم ایف کا شکنجہ اسی قدر سخت ہو جائے گا اور ہم اس شکنجے میں پھنستے ہی چلے جائیں گے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن پر ہمارے فیصلہ ساز، پالیسی ساز اور خاص طور پر مقتدر اداروں کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بحیثیت قوم بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ یہ مانگے تانگے کی پالیسی کب تک چلے گی۔ عالمی سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی چکی میں ہم کب تک پستے چلے جائیں گے۔ کیا موجودہ حکمرانوں کے پاس اس کاتسلی بخش جواب موجود ہے؟