امریکی عدالت نے طالب علموں کے قرضے معاف کرنے سے متعلق بائیڈن انتظامیہ کی اسکیم پر پابندی کا فیصلہ سنا دیا، امریکی صدر کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار۔امریکی ریاستوں ارکانسس، آئیووا، کینساس، میسوری، نیبراسکا اور جنوبی کیرولائینا کی جانب سے بائیڈن انتظامیہ کی 2 کروڑ 60 لاکھ سے زائد طالب علموں کے قرضے معاف کرنے سے متعلق اسکیم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست داخل کی گئی تھی۔چیف جسٹس سپریم کورٹ جان رابرٹس کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے لاکھوں طالب علموں کے قرضے معاف کرنے سے متعلق اسکیم پر 6-3 کا فیصلہ سنایا جس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے امریکی صدر نے طلباء کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے نیا راستہ اختیار کرنے کا اعلان کردیا۔صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ فیصلے نے ایک دروازہ بند کیا ہے، اب نیا دروازہ بنائیں گے،ہم آپ کے حقوق کیلئے اپنی جنگ سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے،آپ کو قرضوں سے نجات دلانے اور اپنے خواب حاصل کرنے میں مدد فراہم کرنے کیلئے آخری حد تک جانے کیلئے تیار ہیں۔یاد رہے کہ یہ اسکیم امریکی صدر جو بائیڈن کی 2020 کی انتخابی کیمپین کے دوران طالب علموں پر وفاق کے 1.6 ٹرلین ڈالرز قرضوں کی معافی سے متعلق کیے گئے وعدوں کے تناظر میں لائی گئی تھی۔ڈیموکریٹس کی جانب سے لائی گئی اسکیم پر ریپبلکنز کی جانب شدید تنقید کرتے ہوئے اسے خصوصی طور پر کالج کے مقروض طالب علموں کو فائدہ پہنچانے والا غیر منصفانہ اقدام قرار دیا گیا تھا کیونکہ دوسرے مقروض اس قرض معافی کے فائدے سے محروم ہیں۔یہ بھی یاد رہے کہ اسکیم کے تحت 1 لاکھ 25 ہزار ڈالر تک آمدنی رکھنے والے خاندانوں سے رکھنے والے پوسٹ سیکینڈری کے طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ 10 ہزار ڈالر جبکہ اس سے کم آمدنی والے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے پیل گرانٹس یافتہ طالب علموں کو 20 ہزار ڈالرز تک قرض معافی کیلئے اہل قرار دیا گیا تھا۔اسکیم کے اعلان کے بعد 26 ملین افراد نے وفاقی حکومت کو اپنی درخواستیں بھیجی تھیں جبکہ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے 46 ملین افراد کو فائدہ پہنچانے کا اعلان کیا گیا تھا۔