نظامِ کہنہ کی محافظ قوتیں اور معراج محمد خاں

منیر نیازی کی بیان کردہ ’’حرکت تیز تر‘‘ کے ساتھ دائروں میں گھومتی سیاست کرنے والوں سے عرصہ ہوا اْکتا چکا ہوں۔ کئی بار ارادہ باندھا کہ اب فقط کتابوں یا نیٹ فلیکس کے ذریعے میسر ہوئی فلموں کے بارے میں لکھا جائے۔ ذہن کے نجانے کس گوشے میں لیکن یہ خیال بیٹھ چکا ہے کہ میرے قارئین کی کثیر تعداد فقط سیاسی معاملات پر ہی میری رائے جاننے کی خواہش مند ہے۔ اتوار کی صبح اٹھتے ہی شاید مجھے سپریم کورٹ کے عزت مآب جج جناب اطہر من اللہ کی جانب سے اعلیٰ عدلیہ کے رجسٹرار کو لکھے ایک خط کو زیر بحث لانا چاہیے تھا۔ میں نے مگر اس سے گریز کوترجیح دی ہے۔
جمعہ کی دوپہر ایک پارسل مجھے گھر کے پتے پر ملا۔ دوکتابوں پر مشتمل تھا۔ دونوں کا موضوع معراج محمد خان کی ذات اور سیاست تھی۔ زیادہ خوش گوار حیرت یہ دیکھ کر ہوئی کہ مجھے ملی دونوں کتابوں پر معراج صاحب کی اہلیہ نے اپنے ہاتھ سے دستخط کرکے انہیں میرے نام بھجوایا تھا۔ ان کی لکھی مختصر تحریر پڑھی تو جی اداس ہوگیا۔ نوجوانی کے دنوں میں ’’انقلاب‘‘ کی خاطر بتائے کامل وارفتگی کے بے شمار لمحات یاد آگئے۔ زبیدہ معراج صاحبہ نے ان دنوں کے اہم ترین کردار یعنی معراج محمد خان کے ساتھ نہایت استقامت اور وفاداری کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ ان کی مستقل جدوجہد پر مبنی کتابوں کو بھجواتے ہوئے درحقیقت زبیدہ آپا نے مجھے حوصلہ دیا ہے۔ شعوری یا لاشعوری طورپر احساس دلایا ہے کہ اپنے ملک کو بہتر اور انسان دوست بنانے کی جدوجہد میں جو رتی بھر حصہ میں نے بھی ڈالا ہے اسے بھلایا نہیں گیا ہے۔
ذاتی طورپر معراج محمد خان سے ملنے سے کئی ماہ قبل ہی گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم ہوتے ہوئے میں 1970ء کے آغاز میں اپنے شہر کے جلوسوں میں نعرے باز ٹولیوں میں نمایاں نظر آتا تھا۔ طالب علموں کی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سرگرم کارکن تھا۔ معراج محمد خان اس کے بانی رہ نما تھے۔ مذکورہ تنظیم کراچی سے شروع ہوئی تھی۔ ایوبی آمریت کے خاتمے کے علاوہ وہ پاکستان کو امریکی کیمپ سے نکالنے کی خواہش مند تھی۔ 
این ایس ایف کے بانی طلبہ اپنے تعلیمی اداروں کے نامور ڈبیٹر ہوا کرتے تھے۔ احتجاج کو بھڑکاتی تقاریر کے عادی تھے۔ حکومت وقت شاید ان کے ’’جوش خطابت‘‘ کو نظرانداز کئے رکھتی۔ ’’لونڈوں‘‘ نے مگر نہایت منظم انداز میں طالب علموں کو ’’نظریاتی‘‘ بنانا شروع کردیا۔ ان کی کاوشیں کامیاب ہوجاتیں تو پاکستان 1970ء کی دہائی سے ایک مختلف اور میری دانست میں شاید’’بہتر‘‘ ملک نظر آنا شروع ہوجاتا۔ نظام کہنہ کی محافظ قوتوں نے مگر ایسا ہونے نہیں دیا۔ ملک کی بہتری کے خواب دیکھنے والے طالب علموں کو ’’کراچی بدر‘‘ کرکے پاکستان کے دیگرشہروں میں پناہ گزین ہونے کو مجبور کردیا۔یہ بات حکمران مگر سمجھ ہی نہ پائے کہ ’’کراچی بدری‘‘ اس شہر سے نکالے نوجوانوں کو دیگر شہروں میں بھی اپنے ہم خیالوں کی تعداد بڑھانے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
بہرحال 1970ء کی دہائی کا آغاز ہوا تو معراج محمد خان پیپلز پارٹی کے بانی اور نمایاں رہ نما?ں میں اپنا مقام بناچکے تھے۔پیپلز پارٹی میں شمولیت کے باوجود انہوں نے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھے۔ اس کے کئی سرکردہ کارکنوں کے وہ ’’گرو‘‘ شمار ہوتے۔ ایوب خان کی جگہ آئے فوجی ڈکٹیٹر یحییٰ خان نے اعلان کردیا کہ وہ 1970ء کے برس ہی پاکستان میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے انتخاب کا انعقاد کروادے گا۔ پیپلز پارٹی مگر ہم جیسے سادہ لوح نوجوانوں کی نظر میں پاکستان میں چین جیسا ’’سرخ انقلاب‘‘ لانے کی خاطر قائم ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو ہم اپنے ہاں کامائوزے تنگ تصور کرتے تھے جنہوں نے انتخاب میں حصہ لینے کے بجائے ’’لانگ مارچ‘‘ وغیرہ کی بدولت انقلاب برپا کیا تھا۔
اصل حقیقت مگر یہ تھی کہ عوام کو ’’طاقت کا سرچشمہ‘‘ پکارنے کے باوجود پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے روایتی اور ’’نئے‘‘ سیاستدانوں کی اکثریت انتخابی عمل کے ذریعے ہی اقتدار کے حصول کی خواہاں تھی۔ بھٹو صاحب بھی اسی خیال کے حامی تھے۔ اپنی سوچ کو مگر ’’اکثریت کی رائے‘‘ ثابت کرنے کے لئے انہوں نے سندھ کے شہر ہالہ میں مخدوم امین فہیم کے والد کی حویلی کے وسیع لان میں ایک کنونشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔ اس کے انعقاد سے قبل ہم پیپلز پارٹی کے لاہور میں ہوئے ہر جلسے یا جلوس میں گھس جاتے۔ ’’انتخاب یا انقلاب‘‘ کا سوال اٹھانے کے بعد خود ہی ’’انقلاب انقلاب‘‘ دہراتے ہوئے جنونی دھمال میں مصروف ہوجاتے۔ ہمارے جنون کا منبع معراج محمد خان کی سوچ تھی جو لاہور میں پھیلی افواہ کے مطابق پیپلز پارٹی کے فیصلہ ساز اور اندرونی اجلاسوں میں ’’پرچی نہیں برچھی‘‘ کا پیغام دہراتے تھے۔
ہماری دھمالوں کے باوجود پیپلز پارٹی نے بالآخر انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ بے تحاشہ تاریخی وجوہات کی بنیاد پر 1970ء  میں ہوئے انتخابات مگر عوام کو اقتدار کی منتقلی کے بجائے ملک کو دولخت کرنے کا باعث ہوئے۔ بنگلہ دیش قائم ہوگیا تو بقیہ پاکستان کا تحفظ بقا اور خوشحال ذوالفقار علی بھٹو کی ذمہ داری بن گئی۔ اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی خاطر انہوں نے ایسے کئی اقدامات لئے جو ہم سادہ لوحوں کو ’’انقلاب‘‘ سے غداری نظر آئے۔
معراج محمد خان نے ایسے اقدامات کو للکارنے کی جرات دکھائی۔ بھٹو صاحب متعدد عوامی اجتماعات میں انہیں اپنا ’’جانشین‘‘ ٹھہراچکے تھے۔ اپنے قائد کے ساتھ انتہائی قریبی تعلقات کے باوجود’’جا نشین‘‘ نے پیپلز پارٹی کو انقلاب سے روگردانی کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے وزارت اور جماعت سے استعفیٰ کا اعلان کردیا۔ پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت سے جدائی کے بعد غریبوں اور مزدوروں کا ساتھ دیتے ہوئے کئی بار پولیس تشدد اور گرفتاریوں کی زد میں آئے۔ بالآخر ’’قومی محاذ آزادی‘‘ کے نام سے اپنی جماعت کے قیام کا اعلان کردیا۔
وقت مگر اب بدل چکا تھا۔ پاکستان سے لاکھوں افراد تیل کی دولت سے مالا مال ہوئے عرب اور خلیجی ممالک مزدوری کی خاطر منتقل ہوچکے تھے۔ ان کی خون پسینے کی کمائی سے ان کے گھرانے قدامت پرست متوسط طبقے میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔ یہ نیا طبقہ پیپلز پارٹی کی ’’روشن خیالی‘‘ سے ناخوش تھا۔ اس کے خلاف 1977ء میں چلائی تحریک کا سب سے متحرک حصہ بن گیا جو بالآخرجنرل ضیاء کی جانب سے فوجی حکومت کے قیام کا سبب ہوئی۔
جنرل ضیاء کے مارشل لاء کے دوران مجھ جیسے سادہ لوح اور جبلی اعتبار سے بزدل افراد نے یہ طے کرلیا کہ وطن عزیز کی مٹی ’’تبدیلی‘‘ کیلئے سازگار نہیں ہے۔ رزق کمانے کی لگن میں مبتلا ہوگئے۔ معراج محمد خان جیسے دلاور مگر اپنی سوچ پر ڈٹے رہے۔ اپنی سوچ کو عملی صورت دینے کی خاطر معراج محمد خان نے بالآخر عمران خان کودورِ حاضر کا ذوالفقار علی بھٹو تصور کرتے ہوئے اپنی جماعت کو دسمبر1997ء میں تحریک انصاف میں مدغم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔ غالباََ 2002ء کے کسی مہینے میں وہ سیکرٹری جنرل تحریک انصاف کی حیثیت میں اسلام آباد آئے تھے۔ چند پرانے ’’انقلابیوں‘‘ سے ایک مشترکہ دوست کے ہاں ملے۔ ان کی طبیعت پر حاوی متلون پن کو نگاہ میں رکھتے ہوئے میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ عمران خان کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چل پائیں گے۔ 2003ء کے 2مئی کو تحریک انصاف سے مستعفی ہوکر انہوں نے میرا خدشہ درست ثابت کردیا۔
ان کی ذات اور سیاست کے بارے میں جو کتابیں مجھے ملی ہیں ان میں سے ایک انگریزی میں ان کے کالج کے زمانے کے دوست شمیم احمد صاحب نے لکھی ہے۔ ’’مائی فرینڈ معراج‘‘ اس کا عنوان ہے۔ دوسری کتاب ضخیم ہے جسے ڈاکٹر سید جعفر احمد نے مرتب کیا ہے جو سماجی علوم کے ممتاز محقق اور استاد ہیں۔ ذاتی طورپر مجھے شمیم احمد صاحب کی کتاب نے معراج صاحب کی ذات کے بارے میں بے شمار نئی معلومات فراہم کی ہیں۔ اہم ترین پہلو اس کتاب میں یہ بھی منکشف ہوا کہ معراج محمد خان کو تاحیات کسی بھی اعتبار سے مستقل اور باقاعدہ آمدنی میسر نہیں رہی۔زبیدہ معراج صاحبہ نے بطور ایک محنتی استاد اپنی تنخواہ ہی سے معراج محمد خان کا گھر اور بچے سنبھالے اور ان کے انتقال کے بعدبھی اس امر پرملال محسوس نہیں کرتیں کہ ان کے شوہر ضدی اور پھڈے باز تھے۔ تاحیات اپنے اصولوں پر ڈٹے رہے اور دس برس سے زیادہ جیلوں کی نذر کردئے۔
شمیم احمد ،معراج محمد خان اور ان کی اہلیہ کے دیرینہ ترین دوست ہیں۔ ان دونوں کی ازدواجی زندگی کو انہوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کیا ہے۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مجھے اپنے سمیت کئی دوست یاد آئے جو اپنے اصولوں یا نظریات وغیرہ کو عرصہ ہوا بھلاچکے ہوتے اگر ان کی بیویاں گھر سنبھالنے کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر کمال خوش دلی سے رضاکارانہ انداز میں اٹھانے کے یا تو قابل نہ ہوتیں یا یہ سوچ کر علیحدگی اختیار کرلیتیں کہ ’’انقلابیوں‘‘ کے دیوانے خواب کا عذاب وہ کیوں بھگتیں۔ اس پہلو پر غور کرتے ہوئے شمیم احمد صاحب کی لکھی کتاب مجھے معراج محمد خان کے بجائے زبیدہ معراج صاحبہ کو سلام عقیدت پیش کرتی محسوس ہوئی ہے۔

ای پیپر دی نیشن