’’ یہ شکار مناسب نہیں‘‘ 

سچ ہے کہ کتابیں خود اپنے قاری کی کھوج میں رہتی ہیں۔اپنی بے ترتیب کتابوں کے انبار میں سے ایک کتاب ڈھونڈ رہا تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی کی کتاب ’’نگارشات‘‘پر نظر پڑی۔ پھر وہ میرے ہاتھوں میں یوں پہنچ گئی جیسے وہ میری تلاش میں تھی۔ اب ’’نگارشات‘‘کھولے بیٹھا ہوں۔ 2011ء میں شائع ہوئی یہ کتاب کالم نگار نے 20جنوری 2013ء کو خریدی ہے کہ کتاب کے پہلے صفحہ پر کالم نگار کا نام اور یہی تاریخ درج ہے۔ 

کالم نگار کا آبائی گھر مولانا سلفی کے گھر سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا۔ درمیان میں ایک بچیوں کا چھوٹا سا اسکول اور ایک تنگ سی گلی پڑتی تھی۔ اسطرح آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں ان کے پڑوس کا اعزاز حاصل رہا۔ ’’نگارشات‘‘کے لمس سے کالم نگار کو اپنے بچپن کی بھولی بسری یادیں ستانے لگیں۔ مولانا کے ماہ رمضان میں سحری کے بعد دیئے جانے والے درس قرآن یاد آگئے۔ کانوں میں سب سے الگ تھلگ ایک عجب سی آواز گونجنے لگی۔اب ویسا لب و لہجہ کہاں سننے میں آتا ہے۔ ان کی پنجابی میں اردو کی آمیزش میں ایک علمی وجاہت، ہیبت، تقدس اور خوشبو رچی ہوتی تھی جو ارد گرد کی فضاؤں کو بھی معطر کر دیتی۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے کسی ایسے ہی موقع کی منظر کشی کی ہوگی۔ 
پھر ایک دن ہوا نے کہا میں تو تھک گئی 
خوشبو کا بوجھ میری کمر کو جھکا گیا
چوک نیائیں گوجرانوالہ میں ان کی مسجد کی نمایاں خصوصیت یہ تھی۔ شاید یہ روایت اب تک قائم رکھی گئی ہے یا نہیں کہ ان کے درس، خطبہ کی آواز مسجد کی حدود سے باہربازار میں نہیں پہنچتی تھی۔ ان کا فرمانا تھا کہ اللہ کا کلام اتنا سستا نہیں کہ راہ چلتے راہگیروں کے کان میں پڑتا رہے۔ جو سننا چاہتا ہے وہ اہتمام سے مسجد میں آئے۔
آجکل سوشل میڈیا کا زیادہ وقت پیران عظام کے قبضہ میں ہے۔ عقیدت مندوں کو انہیں سجدہ،سجدہ تعظیمی ہی سہی، کرتے دیکھتا ہوں تو علامہ اقبال یاد آجاتے ہیں۔ 
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یہ بیچارے عقیدت میں جکڑے اللہ کو سجدہ کرنے کے باوجود ان سجدوں سے نجات نہ پا سکے۔ مولانا سلفی کی سوانح حیات میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ مولانا کے دادا کا نام حکیم عبداللہ تھا۔ ان کے دو بیٹے تھے ایک ابراہیم اور دوسرا احمد دین۔ یہ اْن دنوں ابھی چھوٹے تھے کہ باپ فوت ہو گیا۔ اس وقت یہ لوگ پیر پرستی کی دلدل میں پھنسے ہوئے تھے۔ باپ کی وفات اور دونوں کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے خاندان میں تنگدستی آگئی۔ اسی اثناء   میں عقیدت کے نام پر سالانہ نذرانہ اکٹھا کرنے پیر صاحب گاؤں میں تشریف لے آئے۔ وہاں برسوں سے یہ روایت چلی آرہی تھی کہ گاؤں کا ہر گھرانہ پیر صاحب کی خدمت میں ایک ایک روپیہ بطور نذرانہ پیش کرتا۔ اب ان بیچاروں کا باپ فوت ہو چکا تھا اور گھر میں کوئی اور کمانے والا بھی نہیں تھا۔ اسلئے بہت کوشش کے باوجود وہ صرف آٹھ آنے ہی اکٹھے کر سکے۔ جب مولانا سلفی کے والد یہ آٹھ آنے لے کر پیر صاحب کے حضور حاضر ہوئے تو پیر صاحب کم نذرانہ دیکھ کر جلال و غضب میں آگئے اور اس یتیم کو ایک تھپڑ جڑ دیا۔ ادھر اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی اس خاندان کو راہ راست پر لانے کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ اس مسبب الاسباب نے اس پندرہ سالہ یتیم بچے میں کیا جرأت پیدا کی کہ اس نے بھی پیر صاحب کو جوابا ً تھپڑ جڑ دیا۔ اس گناہ کی پاداش میں انہیں گاؤں سے نکال دیا گیا۔ گاؤں بدری نے اس خاندان کیلئے عظمت اوررزق کی کشادگی کی کئی راہیں کھول دیں۔ مولانا سلفی کے والد لاہور پہنچ گئے اور کتابت کے پیشہ سے وابستہ ہو گئے۔’’تحف الحوذی‘‘کی کتابت انہوں نے ہی کی تھی۔ لاہور ہی سے انہیں وزیر آباد کے محدث العصر حافظ عبدالمنان تک رسائی حاصل ہوئی۔ حافظ صاحب کی صحبت سے انہیں بہت کچھ حاصل ہوا۔ وہ بے اولاد تھے۔اولاد کی خواہش ایک فطری انسانی خواہش ہے۔ انہوں نے حافظ عبدالمنان سے بیٹے کیلئے دعا کی درخواست کی۔ یہیں انہوں نے یہ اقرار کیا کہ اگر اللہ انہیں بیٹا عطا کریگا تو وہ اسے دین کیلئے وقف کر دیں گے۔ دعا قبول ہوئی۔ حافظ عبدالمنان سے بیٹے کا نام رکھنے کی درخواست کی گئی۔ ان کا فرمانا تھا۔ ابراہیم کے بیٹے کے لئے اسماعیل سے موزوں نام اورکیا ہو سکتا ہے؟پھر بعد میں جو نذر مانی تھی اسے پورا کرنے کیلئے اپنی ساری توانائیاں صرف کر دیں۔ پھر سونے پر سہاگہ کہ حافظ عبدالمنان نے مولانا سلفی کو اتنا علمی رسوخ دیا کہ قرآن، حدیث، تقویٰ، عبادت ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بن گئی۔ پھر ان کی ڈیوٹی ان کے استاد حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی نے چوک نیائیں گوجرانوالہ کی جامع مسجد میں لگا دی۔ وہیں انہوں نے امامت، خطابت اور تدریس میں نصف صدی گزار دی۔ 
ان کی بے شمار تحریروں کا عربی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ان کی علمی حیثیت کا اندازہ لگائیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’حجت حدیث‘‘میں ہائیکورٹ کے جج میاں محمد شفیع پر تنقید کرتے ہوئے یوں لکھا: ’’دراصل ہماری معذرت یا ترجمانی بھی آپ حضرات منکرین حدیث اور ادارہ طلوع اسلام سے سنتے ہیں۔ ان گونگے دانشوروں کا یہ حال ہے کہ وہ آج تک نہیں سمجھا سکے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟‘‘۔ آگے چل کر وہ جسٹس محمد شفیع سے یوں مخاطب ہیں ’’آپ حضرات نے یہ شیوہ بنا رکھا ہے کہ ساری عمر انگریزی قانون اور انگریزی زبان پڑھتے ہیں پھر ملازمت کرتے ہیں، پھر ریٹائر ہوتے ہیں اور یہ آخری فرصت کی گھڑیاں جو آپ کو عبادت کیلئے قدرت نے عطا کی ہیں ان کو سنت رسول پر اعتراض اور بحث کرنے میں صر ف کر تے ہیں اور اہل حق کی نظر میں مضحکہ بنتے ہیں یا پھر اونچی کرسیوں سے اس شریف فن پر حملہ آور ہوتے ہیں حالانکہ آپ ایک خاص قانون کے ماہر ہیں، علم حدیث سے واقف نہیں۔ کرسی کی آڑ میں یہ شکار مناسب نہیں‘‘۔ مولانا سلفی جسٹس شفیع کو کرسی کی آڑ میں اس شکار سے منع فرمارہے ہیں۔ کرسی کی آڑ میں ہمارے ہاں اور بہت سے شکار بھی ہوتے رہے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں مولوی تمیز الدین کی آئینی رٹ سے لیکر عمران خان کے عدت کے معاملات تک،ایک لمبی کہانی ہے۔ بہت کچھ لکھنے کی بجائے پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں۔ اے ایمان والو تفکر کرو، یہ بھی تم پر فرض ہے۔

ای پیپر دی نیشن