کیا بھارتی اور پاکستان آرمی میں دوستی ممکن تھی؟

Jul 01, 2024

سکندر خان بلوچ

اپریل 1933ء تک انڈین آرمی میں انڈین آفیسرز کی تعداد مایوس کن تھی۔ اس وقت فوج میں آفیسرز کی کل تعداد 7154 تھی جس میں کل 143 انڈین آفیسر ز تھے یعنی دو فیصد سے بھی کم اور وہ بھی صرف 8 یونٹوں تک محدود تھے۔ لہٰذا انڈیا نائزیشن پروگرام پر بہت توجہ دی جانے لگی۔ اس کی ایک وجہ پورے یورپ میں سیاسی چپقلش، جرمنی اور فرانس کی جنگی تیاریاں بھی تھیں۔ ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی کے علاوہ مہو‘‘ بھارت میں آفیسرز ٹریننگ سکول بھی کھول دیا گیا۔ 1938ء تک انڈین ا?فیسرز کی یہ تعداد 8 یونٹس سے بڑھ کر 21 یونٹس ہو گئی۔ کیڈٹس کی تعداد بڑھا کر 1100 سالا نہ کر دی گئی اور انڈین ملٹری اکیڈمی میں تربیت کا دورانیہ اڑھائی سال سے کم کر کے ڈیڑھ سال کر دیا گیا جسے جنگ کے دوران مزید کم کر کے چھ ماہ کیا گیا۔

   1939 ء میں دوسری جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ اْس وقت تک انڈین آرمی آفیسرز کی تعداد 15 فیصد تک بڑھ چکی تھی۔ جب جنگ شروع ہوئی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ انڈیا آزاد ہو گا یا ایسی کوئی تحریک بھی چل سکتی ہے لیکن حالات نے اچانک رْخ بدلا اور ایشیائی محاذ پر انگریزوں کو جاپانیوں کے ہاتھوں پے درپے شکستیں ہوئیں۔ تقریبا 70-80 ہزار ہندوستانی ٹروپس جاپانیوں کی قید میں چلے گئے۔ 
جاپانیوں نے اتنی بڑی فوج کو ''INA'' یعنی انڈین نیشنل آرمی میں تبدیل کر دیا جس کا مقصدانگریزوں کے خلاف لڑ کر انڈیا آزاد کرانا تھا۔ 1945 ء میں امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر ا سے تباہ کر دیا۔ جنگ کا نتیجہ تو جاپانیوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کی صورت میں سامنے آیا لیکن انگریز سیاسی محاذ پر بھارت میں ہار چکے تھے کیونکہ تحریک آزادی اب حقیقت کا روپ دھار چکی تھی اور انگریزوں کو یہ نوشتہ دیوار نظر آرہا تھا۔ یہ انگریز قیادت کی سمجھداری تھی کہ بجائے لڑ کر آزادی دینے کے سیاسی طریقے سے بھارت کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا۔
   جنگ کے خاتمے سے لے کر ہندوستان کی تقسیم تک آزادی کے کئی منصوبے سامنے آئے لیکن بالاآخر فیصلہ ہندوستان کی تقسیم پر ہوا۔ اس فیصلے کے ساتھ بڑا مسئلہ فوج کی تقسیم کا شروع ہو گیا۔ کچھ لوگ بشمول انگریز سینئر افسران بھارتی فوج کی تقسیم نہیں چاہتے تھے۔ متحدہ فوج رکھنے کا سب سے بڑا چیمپین بریگیڈئیر کری آپا تھا جو اس وقت کیمبرلے سٹاف کالج انگلینڈ میں کورس کر رہا تھا۔ بھارتی ریکارڈ کے مطابق انڈین آفیسرز میں وہ سب سے سینئیر تھا لیکن پاکستانی سینئر فوجی افسران کے مطابق بریگیڈئیر محمد اکبر خان سینئر تھا جو بعد میں پنڈی سازش کیس میں پکڑا گیا اور اْسے سزا ہوئی جبکہ کری آپا آزاد ہندوستان کا پہلا ہندوستانی کمانڈر انچیف بنا۔ بریگیڈئیر کری آپا نے فوج متحد رکھنے کی سرتوڑ کوشش کی۔ اس وقت انگلینڈ میں زیر تربیت تمام ہندوستانی فوجی افسران کی جانب سے ہندوستانی فوج کو متحد رکھنے کی ایک عرضداشت تیار کی گئی جو انڈیا آفس میں پیش کی گئی۔ؔ
 یہ یادداشت اوائل 1947ء میں کیمبرلے انگلینڈ میں زیر تربیت افسران نے تیار کی۔ اسکا روح رواں میجر بھگت (وکٹوریہ کراس) تھا۔ یہ سب کچھ برگیڈئیر کری آپا کی سر پرستی میں ہوا۔ وار آفس کی معرفت بادشاہ سلامت تک بھی یہ عرضداشت پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔ تاریخی حوالوں کے مطابق کئی ایک مسلمان افسران نے بھی اس عرضداشت پر دستخط کئے تھے۔ بریگیڈئیر کری آپا کئی سینئر انگریز فوجی کمانڈروں سے ملا بلکہ قائد اعظم تک بھی جا پہنچا لیکن اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوا۔ ایک فوجی ضیافت میں، جس میں قائد اعظم بھی شامل تھے وہ قائد کے سامنے گیا اور متحدہ فوج کے حق میں دلائل دیئے۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ ہندو اور مسلمان سولجرز کی تاریخ ایک ہے لہٰذا انہیں ایک ہی رہنا چاہیے۔ خطرے کی صورت میں متحد ہو کر اپنے دشمن کے خلاف لڑنا چاہیے۔ جس طرح دوسری جنگ عظیم میں ہوا ہے۔ قائد نے تمام دلائل سننے کے بعد کری آپا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا: 
فکر نہ کریں جب ایسا موقع آپا تو ہم اکٹھے ہوں گے۔'' 
یہ کہہ کر وہآگے بڑھ گئے۔ بھارتی نکتہ نظر سے کری آپا اپنی کوششوں میں مخلص تھا لیکن پاکستانی سینئر افسران کے مطابق یہ نہرو کی چال تھی کہ متحدہ فوج رکھ کر بعد میں بذریعہ طاقت تقسیم کے عمل کو غیر فعال کر دیا جائے۔ انگریز بھی فوج کو متحد رکھنا چاہتے تھے تا کہ سیاسی اور فوجی قیادت دونوں انگریزوں ہی کے پاس رہیں۔ ہمارے فوجی سینئر افسران کی سوچ درست نظر آتی ہے کیونکہ وہ موقع پر موجود تھے۔ بعد کے واقعات سے کچھ ایسے نظر آتاہے کہ اگر کری آپا اپنی کوششوں میں مخلص نہیں تھا اور یہ سب کچھ نہرو کے کہنے پر کر رہا تھا تو پھر وہ واقعی بہت عیار شخص تھا۔
  جب تقسیم کا فیصلہ ہو گیا اور تقسیم کا عمل شروع ہوا تو اگست 1947ء میں انڈین فوجی افسران نے پاکستانی فوجی افسران کو الوداعی ضیافت دی جس کا آنکھوں دیکھا حالCollins and Lappierre نے اپنی مشہور کتابFreedom at Midnight میں یوں بیان کیا ہے۔ 
"The most touching farewell of all took place on the lawns and in the grand ballroom of an institution that once had been one of the most privileged sanctuaries of India's British rulers, the Imperial Delhi Gymkhana Club. Invitation was by engraved cards, sent by the Officers of the Armed Froces of the Dominion of India, inviting guests to a Farewell to Old Comrades Reception in honour of the Officers of the Armed Forces of the Dominion of Pakistan.When the time came to end the evening. Brigadier Cariappa, a Hindu of the 1st Rajputs, climbed to the raised dance plateform and called a silence. ''We are here to say au revior and only au revior. (A happy farewell band tune with a hope to meet again) because we shall meet again in the same spirit of friendship that has always bound us together,' he said.' We have shared a common destiny so long that our history is inseparable. He reviewed their experience together, then concluded: 'We have been brothers. We will always remain brothers. And we shall never forget the great years we have lived together....'' Brigadier Raza plucked the protective cloth from the trophy and held it up to the crowd. Fashioned by a silversmith in old Delhi, it represented two sepoys, one Hindu, one Muslim, standing side by side, rifles at their shoulders trained upon some common foe.''After this, Raza, on behalf of all the Moslems present, hand thanked Cariappa for the gift, the orchestra struck up 'Auld Lang Syne'. (A sad Scotish poem and band tune in memory of very happy days spent together in the past) Instinctively, spontaneously, the officers reached for each other's hands.''
(جاری ہے)

مزیدخبریں