اشرافیہ اور عوام 

 پارلیمنٹ میں بجٹ کی منظوری کے بعد سوائے عوام کے کوئی پریشان نظر نہیں ا رہا ہمارے طبقاتی نظام میں شروع سے ہی معاشرے میں دو طبقے موجود ہیں ایک وہ جن کے پاس سب کچھ ہے اور ایک وہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے دوسرے معنوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایک طبقہ اشرافیہ کا ہے اور ایک طبقہ عوام کا ہے موجودہ بجٹ میں عوام پہ ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے بجلی کے بل ہوشربا مہنگائی کو مزید بڑھا رہے ہیں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں وقتی طور پہ عوام کو خوش کرنے کے لیے کم کر دی جاتی ہیں پھر اچانک ان کی قیمتیں بڑھا کر گویا پٹرول کا بم بھی عوام پر گرا دیا جاتا ہے ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہمیں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اپنا کشکول ملکوں ملکوں لے کر پھرتے ہیں اور ایٹمی طاقت ہونے کی خوشی صرف ایک دن کی 28 مئی کی چھٹی کر کے ہم اپنے اس فرض سے نبرد آ زما ہو جاتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اور وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود ہم لوگ ترقی یافت ممالک کی صف میں کھڑے ہونے کی بجائے غریب ممالک کی صف میں کھڑے دکھائی دیتے ہیں ہمارا کسان اج بھی سڑکوں پہ مارا مارا پھر رہا ہے ہمارے تاجر اج بھی ہڑتالیں کر رہے ہیں ہمارے وکلا ڈاکٹر اوراستاد ہڑتالیں کر رہے ہیں ہمیں انصاف نہیں مل رہا ہمیں ملازمتیں نہیں مل رہیں انصاف نہیں مل رہا ہمیں زندگی کی عام سہولیات نہیں مل رہیں ہمارے بنیادی حقوق جو ہیں وہ پامال ہو رہے ہیں ہم کسی بھی شعبے میں ترقی ترقی نہیں کر رہے بجلی مہنگی ہے گرمی میں شدت ہے عوام پنکھا اے سی اور دوسرے بجلی کے آ لات چلانے پہ مجبور ہیں لیکن جب ان کا بل اتا ہے تو بیچارے بلبلاتے نظر اتے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ الیکشن سے قبل ہمارے حکمرانوں نے غریب عوام کو 200 اور 300 یونٹ تک مفت بجلی کی فراہمی کے بیانات دئیے لیکن اقتدار سنبھالتے ہیں یہ جو بیانات تھے ان پر کوئی عمل درامد نہیں ہوا اور نہ ہی حکومت اس پر کوئی خصوصی توجہ دیتی نظر اتی ہے سب سے بڑا ظلم یہ ہواکر یہ ہوا کہ جس طرح مہنگی بجلی خریدنے کے معاہدے کیے گئے بجلی کی پروڈکشن بھی نہ ہوئی بجلی خریدی بھی گئی لیکن اس کے باوجود ابھی تک ان کے کرایوں کی مد میں کافی رقم دی جا رہی ہے اور وہ بھی عوام سے نکالی جا رہی ہے اب تو ایک یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت دوسرے وسائل استعمال کرنے کی بجائے دوسرے وسائل پیدا کرنے کے بجائے صرف بجلی کے بلوں پہ چل رہی ہیں اب دیکھا جائے تو عوام جو ریڈیو نہیں سنتی جو ٹی وی بھی نہیں دی زیادہ تر ویڈیو بھی نہیں دیکھتی وہ اس کی فیس دے رہی ہے ان کے بجلی کے بلوں اس کی فیس ڈالی جا رہی ہے جبکہ اپ ایک نارمل بجلی کا بل دیکھیں اگر ایک عام ادمی صرف پنکھا اور لائٹ چلاتا ہے تو اس کا بھی 10 سے 15 ہزار تک بل ا رہاہے اور جو اے سی چلاتا ہے اس کا 30 سے 60 ہزار تک یہ ایوریج بل ہے اس سے زیادہ بھی آ رہے ہیں ان بلوں کو کم کرنے کی وجہ سے عوام کی کافی تعداد سولر پہ آ گئی کے اور بجٹ میں اس کی قیمتیں بھی کام کی گئیں لیکن ابھی تک ہمارا ملکی مافیا اس سہولت کو کامیاب نہیں ہونے دے رہا جو حکومت کے اچھے اقدامات ہوتے ہیں اور بجٹ کے اچھے اقدامات ہوتے ہیں اس پر تو وہ عمل نہیں کرتے تو اس سلسلے میں بھی حکومت کو چاہیے کہ جن جن چیزوں کی ڈیوٹی ختم کی گئی ہیں یا جن کی قیمتیں کم کی گئی ہیں ان کو ان کا حصول بھی یقینی بنایا جائے اور ایک ایسی پالیسی بنائی جائے کہ زیادہ لوگ ہیں سولر انرجی پر منتقل ہوں اور وہ بجلی کے ہوشربا بلوں سے بھی جان چھڑا سکیں تو حکومت کو خاص طور پہ یہ چاہیے کہ وہ بجلی کی قیمتیں کم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ائی ایم ایف نے جتنا بھی خون چوسنا تھا وہ۔ چوس لیس جتنس بھی اس میں سے اپنا انہوں نے قرضہ واپس لینا ہے وہ سارا عوام سے نکال رہے ہیں ابھی اپ صرف بجلی کے بل کو دیکھ لیں تو اس میں ٹیکس ہی ٹیکس ہیں کہ اگر ایک ادمی کا بل 45 ہزار ہے تو اس میں 29 ہزار بجلی کی قیمت ہے اور باقی سارے ٹیکسز ہیں تو اگر کم از کم جو ٹیکس ہیں وہ اس کے بعد میں حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کوئی پالیسی جو ہے اس پہ وہ نظر ثانی کرے تاکہ کچھ تو عوام کو ریلیف ملے کچھ مہنگائی تو کم ہو اب ایک عام تاثر یہ آ رہا ہے کہ بیچاری عوام تو یہ بجلی کے بل دے رہی ہے مہنگا پٹرول بھی لے رہی ہے اور بجٹ میں اس پر ٹیکس لگایا ہی نہیں گیا اور ٹیکس ٹیکس بے انتہا لگائے گئے ہیں اور بہت سی چیزوں کی جو ڈیوٹی بڑھا دی گئی ہیں جو بیچارے ہمارے بیرون ملک لوگ رہتے ہیں پیسہ کما رہے ہیں پاکستان کے لیے زر مبادلہ کما ررہے ہیں پیسے بھیج رہے ہیں ان کے لیے بھی مشکلات بڑھا دی گئی ہیں اور ان کے جو ایر ٹکٹ مینگنی کر دی گئی ہیں گئی ہیں باقی چیزیں جو عام ادمی کے استعمال میں ہیں ان کو مہنگا کر دیا گیا ہے اس کے مقابلے میں جو اشرافیہ ہے اس کی مراعات بڑھا دی گئی ہیں اور تو اور اراکین پارلیمنٹ کی مراعات بھی بڑھا دی گئی ہیں تو جو لوگ عوام کی خدمت کرنے کا دعوی کر کے اقتدار میں اتے ہیں پارلیمنٹ میں وہ اپنی مراعات تو فورا بڑھا دیتے ہیں لیکن عوام کی طرف نہیں دیکھتے اس لیے عام تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ اشرافیہ کو مراعات یافتہ طبقہ بنا دیا گیا ہے اور عوام کو سزا یافتہ اب اس فارمولے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ہمارے ہاں کہ جو ہمارے بیوروکریسی کے لوگ ہیں جو حکومت کے لوگ ہیں جو ہمارے بڑے بڑے ان کے رہائش گائیں ہیں انکے جو دفاتر ہیں جو اس میں سامان تعیش ہے جو ان کی زیادہ آ سائشیں ہیں ان پہ کم از کم کٹ لگایا جائے اس پہ پابندی لگانی چاہیے اور اب ایک او چیز بھی نظر آ رہی ہے کہ بجٹ آ گیا منظور بھی ہو گیا جیسے ہو گیا وہاں پہ عوام پر جو بھی بم گرا اسی پراکتفا نہیں کیا جا رہا ںلکہ اب پھر جولائی میں ایک ضمنی بجٹ لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں پھر کچھ چیزوں کی قیمتیں بڑھانے کی تیاری ہو رہی ہے عوام کو اس طرح بیوقوف نہیں بنانا چاہیے اور نہ ان پہ اتنا بوجھ ڈالنا چاہیے کہ وہ مجبور ہو جائیں  (جاری )

 ہمارے سامنے بہت سے ممالک ہیں اس وقت کینیا ہے سری لنکا ہے بولیویا ہے ان ممالک میں عوام جو ہے وہ حکومت کے خلافاور اشرافیہ کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے جو ایک عرصے سے ان کے حقوقِ غصب کئے ہوئے تھے تو یہ جو ایک طبقہ جس کو اپ بہت زیادہ مراعات یافتہ بناتے جائیں گے اور ایک طبقہ جس کو بالکل نیچے لاتے جائیں گے جس کو اس غربت کی لکیر سے نیچے لے ائیں گے تو اخر وہ ایک دن مجبور ہو جائے گا اور صورتحال تنگ آ مد بجنگ آمد والی ہو جائے گی تو اس چیز سے بچنے کے لیے اور ملک میں افراتفری انارکی اور اس قسم کے حالات سے بچنے کے لیے اور ان چیزوں سے بچنے کے لیے کہ ایسے واقعات ادھر بھی رونما نہ ہوں بہت ضروری ہے کہ حکومت اپ ایسی پالیسیاں بنائیں کہ جس میں عوام کو ریلیف ملے اور اشرافیہ پر بھی بوجھ ڈالا جائے ابھی حال ہی میں جو دبئی لیک ائی ہیں اس میں ہمارے بہت سے حکمرانوں کی سیاست دانوں کی وہاں پہ جائیدادیں سامنے ائی ہیں اس پہ کسی ادارے کے کان پہ جون تک نہیں رینگی تو اس لیے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اب ہمارے ہاں شاید کرپشن کو اچھا سمجھا جا رہا ہے اور ان کو ایک طرح کا شیلٹر دیا جا رہا ہے تو یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے اس میں یہ ہے کہ ایک دوڑ چل نکلے گی لوگوں کے درمیان مقابلے کی صورتحال ہو جائے گی کرپشن کی اور دوسری طرف یہ نقصان ہوگا کہ ملک میں دہشت گردی کی لہر ائے گی ملک میں چوری ڈاکے کی وارداتیں ہیں وہ بڑھیں گی پولیس پہلے ہی وارداتوں کو روکنے میں ناکام ہے تو ملک میں افراتفری رہے گی اور معاشی صورتحال پہلے بھی اتنی ٹھیک نہیں ہے ہر دفعہ یہی بہانہ سامنے آ تا ہے کہ ملک دوالیہ ہونے کے قریب ہے خزانہ خالی ہے اس کے باوجود ہم اشرافیہ کو مراعات دیتے جا رہے ہیں ایک طرف بجلی کی قیمتیں مہنگی ہیں لوگ زیادہ بجلی استعمال نہیں کرتے اور دوسری طرف کچھ لوگوں کو آپ بجلی کے یونٹ مفت دے رہے ہیں آپ ان کو ٹرانسپورٹ مفت دے رہے ہیں اپ ان کو پٹرول دے رہے ہیں اپ ان کو لگزری گاڑیاں دے رہے ہیں تو ہمارے ملک میں جب تک کوئی سادگی کی مثال نہیں ہوگی اور جب تک اشرافیہ پر بھی قدغن نہیں لگائی جائے گی ان کے بھی جو اخراجات ہیں وہ کم نہیں کیے جائیں گے ان کی مراعات بھی کم نہیں کی جائیں گی تو صرف ایک بجٹ میں غریب ادمی پر ہی سارا کچھ وصول کرنا وہ کسی بھی صورت قبول نہیں ہوگا اور ایک دیوار بن جائے گی عوام اور اشرافیہ کے درمیان اور وہ بالکل درست نہیں بلکہ نہ تو یہ ملکی تعمیر و ترقی کے لیے مفید ہے اور نہ ہی ملک کی سالمیت کے لیے مفید ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نچلے طبقے کے لیے زیادہ سے زیادہ اقدامات کریے ان کو زیادہ سے زیادہ آسانیاں فرام کرے اور اشرافیہ کو جو اپنے دوران اقتدار بھی اپنے دوران ملازمت بھی اپنے عہدوں کے درمیان بھی فاہدہ اٹھاتے ہیں جن کی انگلیاں گھی اور سر کڑاہی میں ہیں وہ اپنے سٹیٹس کو انجوائے کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ کہیں نہ کہیں بیرونی ممالک میں بھی جا کے اپنے وہاں پہ اکاؤنٹس اور اپنی جائیدادیں بنا کے وہ اپنے زندگی کو انجوائے کرتے ہیں اور یہاں غریب ادمی بیچارا ایک پنکھا چلا کے گرمی کی شدت کو بھی کم کرنے سے محروم ہے

ای پیپر دی نیشن