پونچھ ہاوس لاہور میں ورثہ اور تاریخی یادگاروں کے تحفظ کی کوششوں کو اجاگر کرنے والی کافی ٹیبل بک ''ٹائم لیس ٹریڑرز'' کی رونمائی کے لیے ایک شاندار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ سیکرٹری انڈسٹری، کامرس، انویسٹمنٹ،سکلزڈیولپمنٹ احسان بھٹہ بہت متحرک افسر مانے جاتے ہیں۔بھٹہ صاحب کو نہ صرف اس خطے کی تاریخ پر فخر ہے بلکہ وہ ہر ممکن طریقے سے ورثے کو اصل حالت میں بحال کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ٹائم لیس ٹریڑرز کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس خوبصورت لان میں اس وقت تقریب منعقد ہو رہی ہے۔کچھ وقت پہلے یہاں خود رو گھاس اور کَھڈے تھے۔انہوں نے ٹیم بنائی اور مل کے تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لیے کام شروع کردیا۔وہ اور ان کے ساتھی چھٹی والے دن بھی ان عمارتوں میں ہونے والے کام کو دیکھنے کے لیے وہاں پہنچے ہوتے تھے۔ تاریخی ورثے کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ورثہ کسی ایک مذہب، مسلک کا نہیں ہوتا۔سر گنگا رام کو جدید لاہور کا بانی کہا جاتا ہے تو کیا اس وجہ سے اسے ہم بھلا دیں کہ وہ غیر مسلم تھا۔ یہ کہنا کم علمی اور کم عقلی کا نتیجہ ہے کہ فلاں محل کسی سکھ نے بنوایا تھا،اسے توڑ دو۔ فلاں عمارت کسی ہندو نے تعمیر کروائی تھی اسے گرا دو۔ہندوستاں تقسیم ہوا تو مغل عہد میں تعمیرہونے والا تاج محل،شاہی قلعہ اور دوسری بہت سی عمارتیں بھارت کے حصے میں آئیں۔یہ سب عمارتیں بھارت کی دنیا میں پہچا ن اور سیاحتی آمدن کا بڑا ذریعہ ہیں۔اہرام مصر فراعین نے تعمیر کروائے تھے۔ مصر میں اکثریت مسلمانوں کی ہے لیکن وہ اپنے ورثے پر فخر کرتے ہیں۔یہ سب اس لیے کہ کسی بھی خطے کی تاریخ روایات اور ورثے کا تعلق مذہب سے نہیں بلکہ اس علاقے میں آباد لوگوں سے ہوتا ہے۔یا یوں کہنا چاہیے کہ لوگ مذہب بدل سکتے ہیں لیکن اپنی تاریخ اور ورثے کو نہیں بدل سکتے۔بھٹہ صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے نئی نسل کو نہ صرف اپنی تاریخ سے آگاہ کرنا ہے بلکہ تاریخ کی شاہکار عمارات کو اپنے اصل روپ میں محفوظ بنانے سے ملکی سیاحت کو بھی فروغ دیا جاسکتا ہے۔گجرات کی علم دوست دھرتی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر صنعت چوہدری شافع حسین بڑے دھیمے مزاج کے مگر بہت پڑھے لکھے اور جہاندیدہ سیاست دان ہیں۔ان سے بڑی اچھی گفتگو ہوتی رہی۔وضع داری اور حلیمی ان کی پہچا ن ہے،وہ اپنے حسن سلوک سے کسی کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان کا خطاب سن کے اچھا لگا۔وہ ملکی اور عالمی حالات سے مکمل باخبر انسان ہیں۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت دنیا بھر میں ہنر مند نوجوانوں کی بہت ضرورت ہے۔لیکن پاکستا ن سے بیرون ملک جانے والوں کی اکثریت غیر تربیت یافتہ ہوتی ہے۔ہمارے سکلز سکھانے والے اداروں میں آج بھی پرانا نصاب پڑھایا جارہا ہے۔وزیر اعلی مریم نواز شریف کی قیادت میں وہ صوبے بھر میں قائم ٹیکنیکل سکلز سکھانے والے اداروں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق’اپ گریڈ‘ کرنے جارہے ہیں۔گجرات کی فرنیچر انڈسٹری کو عالمی معیار تک پہنچانے کے لیے ایک کالج قائم کیا جارہا ہے۔چوہدری شافع حسین نے بتایا کہ وہ نجی محفلوں میں اپنے ساتھی وزرا سے کہتے ہیں کہ اگر ہم سب ذمہ داری سے اپنی وزراتوں کے کام دیکھیں تو نہ صرف ملکی نوجوانوں کو بہتر روزگار مل سکتا ہے بلکہ ہماری معیشت کی مضبوطی ہمیں عالمی مالیاتی اداروں کے قرض سے بھی نجات دلاسکتی ہے۔
ٹائم لیس ٹریڑرز میں پونچھ ہاؤس،سر شادی لال بلڈنگ (جی سی ٹی لٹن روڈ)،رسول ٹیکنالوجی یونیورسٹی ایم بی ڈی، بھاولپور اور فیصل آباد ٹیکسٹائل انسٹی ٹیوٹ کے بارے تفصیلات درج ہیں۔اس کتاب کے پڑھنے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ برصغیر کی آزادی کے ہیرو بھگت سنگھ کے خلاف برطانوی عہد میں ٹرائل اسی عمارت میں ہوا تھا۔پونچھ ہاؤس لاہور ایک رہائشی عمارت تھی جو1849 ء سکھ فوج کے خلاف آپریشن کی کمان کرنے والے لارڈ لارنس کے لیے تعمیر کی گئی تھی۔آزاد ہندوستاں کے مشہور ہیرو’بھگت سنگھ‘کا ٹرائل بھی اسی عمارت میں ہوا تھا۔قیام پاکستان کے بعد اس عمارت میں انڈسٹری ڈیپارٹمنٹ قائم ہوا جبکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جنگلات، معدنیات، امداد با ہمی اور ہیلتھ فاونڈیشن کے دفاتر بھی اسی عمارت میں منتقل کردئیے گئے۔ڈائریکٹر آرکیالوجی محمد حسن صاحب کے ساتھ کافی دیر تک گفتگو ہوتی رہی انہوں نے بتایا کہ تاریخی عمارتوں کو ان کی اصل شکل میں بحال کرنے میں بہت زیادہ محنت اور وقت لگتا ہے۔مغل دور میں تعمیر ہونے والی عمارتوں میں چوڑی دیواریں، اونچی چھتیں،کھلی راہداریاں،ہوا کے لیے روشن دان اور عمارت کے اردگرد گھنے سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے۔ہر معاشرہ اپنی مخصوص روایات، تہذیب وتمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی معاشرے، خطے، قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے تاریخی طرز تعمیر اور معاشرے کی بودوباش کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ یقیناً کوئی بھی معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا۔ دوسرے تاریخی شہروں کی طرح لاہورہر دور میں علم و ادب، فن و ثقافت، سماجی و سیاسی سرگرمیوں اور تعمیر و ترقی کا گہوارہ رہا ہے۔اس شہر کی مٹی میں محبتوں کی خوشبو رچی بسی ہے۔ جہاندیدہ، صاحبان علم و فن اور تاریخ کی قدردان شخصیات فن تعمیرات کی حامل شان دار عمارتوں کو محفوظ رکھنے کا جذبہ بھی رکھتی ہیں۔برصغیر کی فن تعمیر کو عالمی ثقافتی ورثہ میں جو چیز شامل کرتی ہے وہ ہے۔ بابر، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں جیسے مغل بادشاہوں کا ذوق تعمیرات ہے۔انہوں نے ہندوستان کے موسم،ماحول اور ضرورت کے پیش نظرمضبوط،ہوا دار اور عالیشان عمارتیں تعمیر کروائیں۔اور عمارتی ساخت اور آرائش و زیبائش کو اسلامی فن تعمیر کے ذریعے عروج بخشا۔مغل دور میں تعمیر ہونے والی شاہکار عمارتیں صرف مسلمانوں نے ہی نہیں بنادی تھیں بلکہ ان تعمیر ات میں ہندووں، سکھوں، عیسائیوں، پارسیوں، بدھ مت اور برصغیر میں موجود دیگر مذاہب کے لوگوں نے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔