چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سترہ رکنی فل کورٹ نے اٹھارھویں آئینی ترمیم سے متعلق سترہ آئینی درخواستوں کی سماعت کی۔ ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمود اے شیخ نے سپریم کورٹ کی طرف سے جاری شوکازنوٹس پرغیر مشروط طورپرمعافی مانگ لی جبکہ وفاق کے وکیل ڈاکٹرباسط ایڈووکیٹ نے غیر معینہ مدت کے لیے مہلت مانگی ہے۔ اٹھارھویں ترمیم کے خلاف ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ترمیم آئین سے متصادم ہے کیونکہ پارلیمانی کمیشن کو ججوں کی تقرری کا اختیار دے کرعدلیہ کی آزادی کوسلب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا کام انتظامیہ سے الگ ہے، انتظامیہ کو چاہیئے کہ سٹیل مل اوردیگراداروں میں ہونےوالی کرپشن کوروکے اس موقع پرجسٹس اصف کھوسہ نے استفسارکیا کہ ترمیم میں ججوں کی تقرری سے متعلق پہلے طریقہ کارکے غلط ہونے سے متعلق کوئی وجوہات بیان کی گئی ہیں؟اس پر محمداکرم شیخ نے کہا کہ ایسی کوئی بات بیان نہیں کی گئی۔ چونکہ آئینی کمیٹی کویہ اختیارحاصل تھا کہ وہ سابق ڈکٹیٹرکی شامل کی گئی ترامیم کوختم کرے گی لیکن کمیٹی نے ججوں کی تقرری سے متعلق ترمیم شامل کرکے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ جس پرجسٹس جاوید اقبال نے استفسار کیا کہ موجودہ اسمبلی قانون سازاسمبلی ہے یا نہیں اوراس اسمبلی کو قانون سازی کا اختیار حاصل تھا یا نہیں؟ جو ترامیم شامل کی گئی ہیں یہ سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشورمیں شامل تھیں؟ محمد اکرم شیخ نے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو نے آئین کی چھٹی اورساتویں ترمیم میں ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو نہیں کوچھیڑا تھا اورنہ ہی سترھویں ترمیم میں ایسا کیاگیا تھا۔ آئینی کمیٹی نے بند کمرے میں بیٹھ کر فیصلے کیے۔ اس پرچیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری نے کہا کہ ججوں کی تقرری کےمعاملے کومیڈیا میں پیش کیاگیا تھا۔ اکرم شیخ نے پورا دن دلائل دیئے اسکے بعد کیس کی سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی گئی، اکرم شیخ کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔