”پاکستان کی معاشی بدحالی کی وجوہات بلواسطہ ٹیکس اور قرضوں پر انحصار ہے‘ ‘

Jun 01, 2010

سفیر یاؤ جنگ
لاہور (رپورٹ:۔ احسن صدیق) پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کی بنیادی وجوہات حکمرانوں کے بیرون ملک اثاثے، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائٹ ٹیسٹ بننا، حکومتوں کے آمدن سے زائد اخراجات، امیروں پر براہ راست ٹیکسوں کی بجائے غریبوں پر بلواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ، دنیا بھر میں پاکستان کی انتہائی کم ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو، پاکستانی حکومت کا وسائل کی بجائے قرضوں پر انحصار، سفارش اور کرپشن کی انتہا، دولت کی غیر مساوی تقسیم ہیں۔ معیشت کی بحالی کے لئے غیر ترقیاتی اخراجات میں کمی، سود پر مکمل پابندی، چھوٹی کابینہ، بلواسطہ ٹیکسوں کی بجائے بلاواسطہ (ڈائریکٹ) اور ویلتھ ٹیکس کا نفاذ، اشیا ضروریہ پر ویٹ سمیت تمام ٹیکسوں کا خاتمہ، کرپشن و سفارش کے خاتمے کے لئے ٹھوس اقدامات، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ سے علیحدگی، آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے قرضوں سے اجتناب، ٹیکس بیس (دائرہ کار) میں وسعت ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو 16 فیصد پر لانا، تعلیم، صحت اور انسانی ترقی کے لئے زیادہ فنڈز مختص کرنا ضروری ہے۔ اس امر کا اظہار گزشتہ روز حمید نظامی ہال میں منعقدہ مجلس مذاکراہ ”معیشت کی زبوں حالی ذمہ دار کوکون؟ اصلاح احوال کیسے ممکن ہے“ کے موضوع پر صدر تحریک انصاف پنجاب احسن رشید، سربراہ جے یو پی نفاذ شریعت انجینئر سلیم اللہ خان، ق لیگ کے رہنما اور سابق صدر گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ایس اے حمید نے کیا ہے۔ نظامت کے فرائض انچارج ایوان وقت خواجہ فرخ سعید نے ادا کئے۔ تلاوت قرآن مجید کی سعادت حافظ عمران نے حاصل کی۔ سوال و جواب کی نشست میں عبدالودود خان، ڈاکٹر منور چودھری و دیگر نے حصہ لیا۔ احسن رشید نے کہا کہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت کنگال ہے، اخراجات آمدنی سے زیادہ ہیں۔ 2009-10ء میں کل حکومتی اخراجات کا حجم 2400 ارب روپے جب کہ آمدن 1600 ارب روپے ہے۔ 800 ارب روپے کا بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے حکومت کشکول لے کر دنیا بھر میں ذلیل ہو رہی ہے۔ حکومت کے ذمے قرضوں کا مجموعی بوجھ 9 ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ٹیکسوں کا سارا بوجھ غریبوں پر ہے۔ پاکستان ٹیکس ٹی جی ڈی پی ریشو انتہائی کم ہے۔ بھارت میں یہ شرح جی ڈی پی کے 18 فیصد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویلیو ایڈڈ ٹیکس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا۔ انجینئر سلیم اللہ نے کہا کہ پاکستان میں جی ڈی پی کی شرح نمو انتہائی کم ہے اور دولت کی تقسیم غیر مساوی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اقتصادی ماہر کے مطابق آئندہ بجٹ کا سائز 3 ہزار ارب روپے ہو گا جب کہ ہمارا ریونیو 1600 ارب روپے ہے اس کا مطلب ہے کہ حکمرانوں کو 1200 ارب روپے کے قرضے لےنے پڑیں گے۔ اس وقت 13 کروڑ پاکستانیوںکی روانہ آمدنی 150 روپے فی کس ہے جب کہ ساڑھے 6 کروڑ پاکستانیوں کی روانہ آمدنی 75 روپے ہے جو خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ معیشت پر بنکاروں کا قبضہ ہے جن کا معیشت سے کوئی واسطہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کرپٹ افراد کو پھانسی دی جائے۔ سردار حسنین بہادر دریشک نے کہا کہ تمام مسائل کے ذمہ دار عوام بھی اتنے ہی ہیں جتنے حکمران۔ انہوں نے کہا کہ رشوت اور سفارش کا ناسور ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے اسے ہم نے اپنا حق سمجھ لیا ہے۔ رشوت اور سفارش کو ختم کئے بغیر ہم اپنے مسائل کو ختم نہیں کر سکتے۔ ایس اے حمید نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کی اکنامک مینجرز مشرف دور والے ہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت دعوی کر رہی ہے کہ ملک میں غربت کی شرح 17.2 فیصد ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ غربت کا تناسب 40 فیصد ہے اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 7.5 کروڑ ہے۔ زرعی و صنعتی پیداوار کو بڑھایا جائے۔ توانائی کا بحران حل کرنے کے لئے کالاباغ و دیگر ڈیم بنائے جائیں۔ سولر انرجی، ایٹمی انرجی، کول انرجی اور دیگر ذرائع کو بروئے کار لایا جائے۔
مزیدخبریں