مجھے خوف آتش گل سے ہے....یہ کہیں چمن کوجلانہ دے

گذشتہ روز وزیر داخلہ جناب رحمن ملک نے اپنے ایک بیان میں اعتراف کیا ہے کہ کراچی میں سانحہ مہران کی ابتدائی تفتیش کے دوران جو انکشافات سامنے آئے ہیں ان کی بناءپر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کے نیول بیس کے اندرون خانہ رابطوں کو رد نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ میڈیا کے علاوہ بعض دفاعی تجزیہ نگاروں نے 2 مئی کے سانحہ ایبٹ آباد کے فوراً بعد ایسے خدشات کی طرف دبی زبان سے ارباب اقتدار کی توجہ دلانا شروع کر دی تھی۔ مگر اب وزیر داخلہ کے بیان کے بعد ایسے خدشات کو مزید تقویت ملی ہے۔ گذشتہ برس جی ایچ کیو پر دہشت گردوں کے حملہ کے بعد بھی بعض حلقوں کی طرف سے ایسی آوازیں اٹھی تھیں لیکن آئی ایس پی آر اور حکومت پاکستان کی طرف سے پرزور تردید پر ایسے خدشات بڑی حد تک رفع دفع ہو گئے تھے۔ لیکن کینسر کی طرح اس کی جڑیں اندر ہی اندر پھیلتی رہتی ہیں جبکہ اکثر اوقات بیرونی سطح پر مرض کا انکشاف کافی دیر کے بعد ہوتا ہے۔ کئی برس پہلے جی ایچ کیو کے آڈیٹوریم میں سینئر افسران کے اجلاس پر ایک حاضر سروس میجر جنرل اور اس کے ساتھ ایک بریگیڈئر اور چند دیگر افسران کی طرف سے پاک آرمی کی ہائی کمان کا تختہ الٹنے کی سازش آخری وقت پر پکڑے جانے کا واقعہ قارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سن 80ءکی دہائی اور سن 90ءکی ابتدا میں افغان جہاد کے اثرات اس وقت کے صدر جنرل ضیاءالحق کے اسلامی جوش و جذبہ کے تحت پاکستان آرمی کی مختلف سطح پر سرایت کرنے شروع ہو گئے تھے۔ یہاں تک کہ فوج کے دیگر نعروں میں جہاد کا نعرہ بھی شامل ہو چکا تھا۔ اسلام آباد میں مختلف وزارتوں کے سیکرٹریٹ کی عمارتوں نے مغربی طرز تعمیر کے واش روم اور ٹائلٹ جب صدر ضیاءالحق کے نوٹس میں آئے تو انہوں نے ان پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دستخط سے ایک حکم نامہ جاری کیا کہ تمام وزارتوں کی عمارتوں میں اسلامی طرز کے ٹائلٹ فوری طور پر تعمیر کئے جائیں۔ راقم نے جناب صدر کے اس اسلامی جوش جذبہ پر ایک کالم بھی تحریر کیا تھا لیکن اگست 1988ءمیں سانحہ بہاولپور کے بعد انتخابات کے نتیجہ میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں تو وہ مختلف جماعتوں اور گروہوں میں تشدد کے رجحان کے بارے میں متفکر تھیں۔ سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی اور روس میں سوویت حکومت کے خاتمہ کے باوجود جہاد افغانستان کے اثرات پاکستان سول سوسائٹی اور عوام کی زندگی کے ہر پہلو پر کلاشنکوف کلچر اور دیگر سوشل سماجی، اقتصادی اور مذہبی حلقوں میں بھی اپنے اثرات کی گہری جڑیں ثبت کرنے لگی تھیں۔ 30 لاکھ سے زائد مہاجرین نہ صرف کیمپوں میں بلکہ پورے ملک کی معیشت پر اپنے نقوش پیدا کر چکے تھے جو آج تک قائم ہیں۔ قارئین اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس طرح سن 80ءکے جہادی آج کے دہشت گرد بن چکے ہیں۔ 1993ءکے آخر 1994ءکے شروع میں محترمہ وزیراعظم نے راقم کو اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ کا تاثر معلوم کرنے کیلئے ملاقات کےلئے بھیجا کہ فوج کے افسران میں جہادی خیالات کے حامل حلقوں کے ساتھ ہمدردی ےا ہم خیال عناصر کی شرح فیصد کا کیا کوئی اندازہ ممکن ہے۔ یہ میرے لئے بڑا حساس اور مشکل مشن تھا۔ جی ایچ کیو میں آرمی چیف کے دفتر میں ہم دونوں تھے اور کوئی تیسرا نہ تھا کیونکہ میں نے تنہائی میں ملاقات کی درخواست کی تھی۔ جنرل کاکڑ نے میرے سوال کا نفی میں جواب دیتے ہوئے مجھے کہا ”اکرام صاحب پرائم منسٹر کو یقین دلائیں کہ پاک آرمی کے جوان اور افسران اپنی پیشہ وارانہ مہارت کو بہتر بنانے کے علاوہ دیگر امور اور خدشات جن کا اظہار کیا گیا ہے وہ ایسی باتوں سے سو فیصد لاتعلق ہیں جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ ان کی ٹریننگ کا ایک اہم فریضہ ہے“۔ جس پر راقم نے ہلکے پھلکے انداز میں آرمی چیف سے پوچھا ”کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ لیفٹیننٹ کرنل کے رینک سے لیفٹیننٹ جنرل کے رینک تک کتنے افسران نے داڑھیاں رکھی ہوئی ہیں“۔ میرے سوال پر جنرل صاحب کو اچنبا ہوا کہ میں ایسا سوال کیوں پوچھ رہا ہوں کہ جس سے کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا لیکن ساتھ ہی فوراً یہ بھی کہا کہ انہوں نے کبھی اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش نہیں کی۔ جنرل وحید کاکڑ ہمیشہ سنجیدہ اور نہایت Formal رویہ اور باڈی Language کےلئے مشہور تھے لیکن میں نے ان کی آنکھوں میں ایک چمک اور ہلکی سی مسکراہٹ دیکھی جب انہوں نے Hot Line فون کو اٹھاتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ملٹی انٹیلی جنس میجر جنرل علی قلی خان کو یہ کہا ”کیا آپ دو منٹ کےلئے آسکتے ہیں۔ کرنل اکرام اللہ میرے پاس بیٹھے تھے اور انہوں نے ایک ایسا سوال پوچھا ہے جس کا میں جواب نہیں دے سکا۔ شاید آپ دے سکیں“۔ تین چار منٹ کے اندر علی قلی خان بھی آگئے لیکن وہ بھی میرے سوال کا جواب نہ دے سکے لیکن میرے آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے نہایت سنجیدگی سے آرمی چیف سے کہا ”سر کرنل اکرام کا سوال قابل توجہ ضرور ہے۔ اس وقت تو ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیںہے۔ \\\"But the number of officers supporting beareds is certainly growing\\\"
قارئین سے معافی چاہتا ہوں کہ سانحہ ایبٹ آباد اور سانحہ مہران کا ذکر کرتے کرتے افواج پاکستان کے اندر دہشت گردوں کے ساتھ خفیہ رابطوں کا ذکر مجھے کہاں سے کہاں لے گیا۔ اپنے گذشتہ دورہ پاکستان میں امریکی سیکرٹری خارجہ ہیلری کلنٹن نے کہا تھا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان اور افواج کے اعلیٰ سطحی ارکان کو اسامہ بن لادن کے پاکستان کی سرزمین موجود ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ لیکن پاکستان کے اندر کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی سطح پر ایسے افراد یقینا ہونگے جن کا اسامہ سے رابطہ ہوگا۔ اسی طرح اب آئی ایس آئی اور پاکستان نیوی کھوج لگا رہی ہے کہ مہران بیس کے اندر کوئی نہ کوئی ایسے عناصر ضرور موجود ہونے کا شبہ ہے جو حملہ آور دہشت گردوں کے ساتھ رابطے میں تھے اور اب وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی اس پر اپنی مہر ثبت کر دی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور سے نیوی کے ایک سابق کمانڈو کو 2 ساتھیوں سمیت حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ایک حساس ادارے نے سابق نیوی کمانڈو کامران احمد، اس کے بھائی زمان اور ایک نامعلوم ساتھی کو جمعہ کی دوپہر لاہور میں ایک دکان سے حراست میں لےکر نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔ قبل ازیں ایک اعلیٰ افسر پر تشدد کے الزام میں کامران احمد کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔ گرفتار کئے جانے والے ان اشخاص پر پی این ایس مہران میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔!!

ای پیپر دی نیشن