افکار کی کوکھ سے ہی ستاروں پرکمندیں ڈالنے والی امنگ پیدا ہوتی ہے اور افکار کی ہی کجی آدمی کو گمراہی کا سفر اختیار کرنے پر مائل کردیتی ہے۔ 1970ءکی دہائی کے اوائل میں تب کے وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹومرحوم کے ذہن میں ایک سوچ نے جنم لیا جو پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کی امنگ میں تبدیل ہوگئی۔ اُس وقت یہ اُمنگ ایک دیوانے کا خواب لگتی تھی۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ¾ اِس امنگ کو تکمیل کی منزل کی طرف لے جانے کی منصوبہ بندی کرتے وقت بھی بھٹو مرحوم کو اپنے مجنونانہ خواب کے قابلِ تعبیر ہونے کا زیادہ یقین نہیں تھا ۔یہ یقین انہیں اُس وقت بھی حاصل نہیں ہوا ہوگا جب انکی راہیں ایک اور دیوانے خواب پرست کی راہوںکے ساتھ ملیں جسے آج ہم محسنِ پاکستان کے نام سے جانتے ہیں ۔ یہ عظیم خواب تقریباً ربع صدی بعد ایک عظیم حقیقت کیسے بنا ¾ یہ ایک طویل اور ایمان افروز داستان ہے۔ اس داستان کے کرداروں میں چند نام بہت معروف ہیں ¾ مثلاً جنرل ضیاءالحق مرحوم اور جناب غلام اسحاق خان مرحوم مگر عوام شاید اُن لاتعداد سائنسدانوں اور ورکروں کے بارے میں کبھی نہ جان سکیں جنہوں نے کہوٹہ اور اس عظیم منصوبے کے دیگر مراکز میں کام کیا اور نہ ہی عوام کو ان بے شمار سرفروشوں کا علم ہوسکے جنہوں نے آئی ایس آئی کے پلیٹ فارم سے اس منصوبے میں مطلوب ” لوازمات “ کو دنیا کے کونے کونے سے وطن ِ عزیز تک پہنچایامگر یہاں میرا موضوع یہ داستان بیان کرنانہیں صرف اس بات پر زور دینا ہے کہ جن ہتھیاروں پرآج پوری قوم ناز کرتی ہے اور جن ہتھیاروں کی تیاری سے منسلک ہونے کے اعزاز کو بہت سارے لوگ اپنا سب سے قابلِ فخر سرمایہ سمجھتے ہیں‘ ان ہتھیاروں کو پاکستان کی گرفت میں لانا صرف ایک ” سوچ “ کا نتیجہ تھا۔
یومِ تکبیر آیا اورگزر گیا ۔ یہ ایک خوش گوار اتفاق ہے کہ جس میاں نوازشریف کے میں ” ایٹمی بٹن “ دبانا لکھا تھاوہی میاں نوازشریف چند روز میں تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم کی ذمہ داریاں سنبھال رہے ہیں۔ جن اصحاب نے 1998ءمیں ایٹمی کلب میں پاکستان کی باقاعدہ شمولیت کی مخالفت کی تھی‘ انکی سوچ کی کجی آج بھی انہیں اس حقیقت کا اعتراف کرنے نہیں دیتی کہ اگر پاکستان کو ایک مستند ایٹمی طاقت نہ بنایا گیا ہوتا تو آج ہماری آزادی ہمارے دشمنوںکے رحم و کرم پر ہوتی۔
میری نظروں اور میرے کانوں سے یہ دلیل کافی تکلیف دہ طور پر مانوس ہے کہ جو ہتھیار ہم نے اپنی حفاظت کیلئے بنائے تھے ¾ ہم شب و روز ان ہتھیاروں کی حفاظت کیلئے متفکر رہتے ہیں۔ کبھی ہمیں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کہیں مغرب کسی گھناﺅنے منصوبے کے ذریعے ہم سے یہ ہتھیارچھین نہ لے اور کبھی ہمیں یہ دھڑکا رہتا ہے کہ ہمارا کوئی جانا پہچانا دشمن ان اڈوں پر حملہ نہ کردے جہاں ان ہتھیاروں کے موجود ہونے کا گماںہو۔چند روز ہوئے مجھے ایک ایسے ہی دانشور کا ایک مقالہ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں موصوف نے یہ گمراہ کن دلیل پیش کی کہ جن ہتھیاروں کی تیاری پر ہم نے اپنی معیشت کا بہت بڑا حصہ غرق کردیا‘ انکی حفاظت کیلئے ہم اپنی باقی ماندہ معیشت کو بھی داﺅ پر لگائے ہوئے ہیں۔
”یہ وہ ہتھیار ہیں جو کبھی استعمال نہیں ہوں گے۔ اور اِن کی حفاظت کیلئے استعمال ہونیوالے تمام وسائل اسی طرح ضائع جائینگے جس طرح ان کی تیاری پر صرف ہونیوالے وسائل ضائع کئے گئے۔ “ موصوف نے لکھاہے۔ ”آج کے دور میں حقیقی دفاع صرف مضبوط معیشت سے کیا جاسکتاہے۔“
موصوف کے خیالات کے جواب میں میں صرف یہ کہوں گا کہ یہ درست ہے کہ یہ ہتھیارکبھی استعمال نہیں ہونگے لیکن اس سے بھی زیادہ درست یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کی موجودگی ہی ہمارے تمام دشمنوں کو یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ہمیں تسخیر اور مغلوب کرنے کی کوئی بھی جارحانہ کوشش خود کشی سے کم نہیں ہوگی اگر مضبوط معیشت بہترین دفاع ہوتی تو دنیا بھر کی طاقتور جمہوریتیں اپنے آپ کوہتھیاروں سے پاک ہی رکھتیں۔ دنیا ایک جنگل ہے جس میں بقا صرف ایسے ” جانور “ کی ممکن ہے جو اپنے سے زیادہ طاقتور جانوروں سے اپنے بچاﺅ کی تدابیر جانتا ہو۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جو ہتھیار ہم نے اپنی حفاظت کیلئے بنائے تھے ان کی حفاظت کرتے رہنا ہماری ایک بڑی قومی ترجیح بن گئی ہے‘ تو یہاں میں کہوں گا کہ یہ ہتھیار ہی نہیں‘ ہماری آزادی کی ضمانت ہیں‘ ہمارا سب سے بڑا قومی اثاثہ ہیں۔ ہم اِن کی حفاظت ہتھیار سمجھ کرنہیں کرتے ۔ اِنکی حفاظت ہم اپنی آزادی اور اپنے قیمتی اثاثوں کے طور پر کرتے ہیں۔
میرے نزدیک ہمارا پہلا یوم آزادی 14اگست 1947ءتھا ۔ہمارا دوسرا یوم آزادی 6ستمبر1965ءتھااورہمارا تیسرا یوم آزادی 28مئی 1998ءتھا۔ 14اگست1947ءکو ایک قوم اور ایک ملک بننے کے لئے ہمیں ایک ” جغرافیہ “ ملا۔ 6ستمبر1965ءکو ہمیں عزیز بھٹی شہید کاوہ ”سینہ “ملا جس نے دشمن کی گولی کھا کر ہماری رگ و پے میں صداآزاد رہنے کی تڑپ پیدا کی۔ اور28مئی 1998ءکو ہمیں یہ یقین ملا کہ جب تک دنیا قائم ہے اس سرزمین پر تکبیر کی صدائیں ہمیشہ گونجتی رہیں گی۔ قومو ںکو عظمتوں کا سفر طے کرنے کیلئے عظیم علامتوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ علامتیں ہمیشہ منزلوں کو نظروں کے سامنے اور حوصلوں کو آسمان کی وسعتوں تک بلند رکھتی ہیں۔
ہم چند روز میں اپنی تاریخ کے ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں۔ 5جون 2013ءکو میاں نوازشریف تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی ذمہ داریاں سنبھالیں گے ۔ خیبر پختون خواہ میں عمران خان کی جماعت کی حکومت قائم ہوچکی ہوگی۔ سندھ حسب سابق جناب آصف علی زرداری کے کنٹرول میں ہوگا۔ بلوچستان میں ایک نئی حکومت کی رٹ وجود میں آچکی ہوگی۔
ہمارے سامنے بہت سارے چیلنج ہیں ۔ سب سے اہم مسئلہ توانائی کے خوفناک بحران کا ہے جسے حل کئے بغیر ہم قومی ترقی کے جامد پہیوں کو حرکت میں لاہی نہیں سکتے۔اسکے بعد دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کا مسئلہ ہے۔ قومی معیشت کی مردہ رگوں میں زندگی کی روح پھونکنے کا مسئلہ ہے۔ قومی یکجہتی کیلئے تمام ضرور ی اقدامات کرنے کا مسئلہ ہے۔ غیروں کی ڈکٹیشن سے نکلنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار حاصل کرنے کا مسئلہ ہے۔ ان تمام مسائل کی بے پناہ اہمیت سے ذرا سا بھی انکار ممکن نہیں مگر میرے نزدیک سب سے اہم مسئلہ آزادی کی ان علامتوں کو اپنی ترجیحات میں اولیت عطا کرنے کا ہے جن کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔ہمیں 14اگست 1947ء‘6ستمبر1965ءاور28مئی 1998ءکے جذبوں کو پوری توانائی کے ساتھ اپنے سینوں میں ابھارنا ہوگا۔یہی جذبے ہماری قومی جدوجہد کو وہ ایندھن فراہم کرسکتے ہیں جس کے بغیر ہم اپنے سفر کا آغاز نہیں کرسکتے ۔ہمارے وجود ایسی گاڑیوں جیسے بن چکے ہیں جن میں پہیے بھی ہیں‘ انجن بھی ہے مگر ایندھن نہیں۔ایندھن ہمیشہ جذبوں سے پیدا ہوتا ہے‘ اگر آج ہمارے لیڈر سچ مچ فیصلہ کرلیں کہ پاکستان کی فضائیں آئندہ صرف تکبیر کی صداﺅں سے گونجیں گی‘ تو کوئی وجہ نہیں کہ مسائل کے پہاڑ ہمارے ارادوں کے سامنے ڈھیر نہ ہوجائیں۔جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مملکتِ خدادادپاکستان کا قیام تکبیر کی صداﺅں کیلئے عمل میں نہیں آیا تھا ان سے نبرد آزما ہونے کا وقت آگیا ہے۔ قوم کو ”اسلامی فلاحی مملکت “ کے قیام سے فرار کا کوئی راستہ منظور نہیں۔۔۔مسلم لیگ )ن(اور تحریک انصاف دونوں بڑی قومی جماعتوں کی قیادتیں پاکستان کو علامہ اقبالؒ کی تعلیمات اور قائداعظم ؒکے فرمودات کیمطابق اسلامی فلاحی مملکت کے سانچے میں ڈھالنے کے ہدف سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار ماضی میں اتنی مرتبہ کرچکی ہیں کہ اب ان سے اس ضمن میں بڑی بھرپور توقعات رکھنا ایک فطری امر ہے۔
میاں نوازشریف کا پہلا کام ایک ذمہ دار سنسر بورڈ کا قیام اور متذکرہ اخلاقی شکست و ریخت کو روکنے کیلئے ایک ٹھوس اور موثر اقدام ہوگا۔ اسکے بعد تعلیم کے شعبے میں اپنی قومی شناخت کو اجاگر کرنے کا چیلنج سامنے آئیگا اور اسکے ساتھ ہی وہ تاریخی وعدہ پورا کرنے کا مرحلہ آئیگا جو ہمارے اکابرین نے آئین کو قرآنی تعلیمات کے مطابق ڈھالنے کے سلسلے میں کیا تھا۔
تین عظیم دن۔۔۔تین عظیم علامتیں
Jun 01, 2013