بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے پاکستان اور بھارت کے مابین تمام دیواریں گرانے کو ناگزیر اور وقت کی سب سے بڑی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں پائی جانیوالی غیریقینی کی صورتحال کو ختم کرنے کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی چارہ نہیں تاہم بات چیت کے دوران صرف ایسے مسائل سامنے لائے جائیں جنہیں فوری طور پر حل کیا جا سکے۔ گزشتہ روز ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے باور کرایا کہ مذاکرات میں ایسے مسائل کو اجاگر نہ کیا جائے جن پر وقت ضائع ہو اور حاصل کچھ نہ ہو پائے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے لوگوں میں اعتماد پیدا کرنے کیلئے پاکستان کو بھارت مخالف سرگرمیاں بند کرنے سمیت سخت نوعیت کے اقدامات اٹھانا ہونگے تاکہ ایک ایسی فضا قائم ہو سکے جس سے بھارت کے لوگوں کو یقین ہو جائے کہ دونوں ممالک کے مابین بحال ہونیوالے مذاکرات نتیجہ خیز رہیں گے۔ انہوں نے ممبئی حملوں کی تحقیقات اور پاکستانی سرزمین بھارت مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ ہونے دینے سے متعلق میاں نواز شریف کے بیان کو خوش آئند قرار دیا اور کہا کہ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نے ایسے بیانات انتخابات میں اپنی پارٹی کی کامیابی کے بعد دیئے جو ایک مثبت پیغام ہے۔ انکے بقول پاکستان کی سرزمین اب بھی بھارت مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ نئی حکومت ان سرگرمیوں پر قابو پاتی ہے تو یہ تعلقات کو استوار کرنے کیلئے اہم قدم ہو گا۔
پاکستان بھارت تنازعات مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی خواہش کا اظہار اب تک بھارت سے زیادہ پاکستان کی جانب سے ہوتا رہا ہے مگر بدقسمتی سے مذاکرات کا کوئی دور آج تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکا اور یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین ہر سطح کے مذاکرات خود بھارت کی جانب سے سبوتاژ کئے جاتے رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین تقسیم ہند کے بعد سے ایک ہی تنازعہ چل رہا ہے جو بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کو حق خودارادیت نہ دینے اور کشمیر کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط جمانے سے پیدا ہوا۔ یہی تنازعہ پاکستان بھارت دو جنگوں کا باعث بنا‘ سقوط ڈھاکہ پر منتج ہوا اور اسی تنازعہ کے پس منظر میں باقیماندہ پاکستان کی سالمیت کیخلاف بھارتی جارحانہ عزائم کو بھانپ کر پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر مجبور ہونا پڑا جبکہ اسی تنازعہ¿ کشمیر نے ہی پاکستان اور بھارت کے مابین پانی کے سنگین تنازعہ کو بھی جنم دیا ہے جس کے تحت بھارت پاکستان کو اسکے حصے کے تمام پانی سے محروم کرکے اور اسے ایتھوپیا اور صومالیہ جیسے قحط سالی کے حالات سے دوچار کرکے ایک نیم مردہ پاکستان پر ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہے جبکہ بھارتی آبی دہشت گردی سے دنیا کو تیسری عالمی جنگ پانی کے تنازعہ پر ہی شروع ہوتی نظر آرہی ہے اور خوف یہ لاحق ہے کہ اب یہ عالمی جنگ شروع ہوئی تو وہ روایتی ہتھیاروں سے نہیں‘ ایٹمی صلاحیتوں کے بل بوتے پر لڑی جائیگی۔ اس ممکنہ ایٹمی جنگ میں دنیا کس تباہی سے دوچار ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں تو پاکستان بھارت سازگار تعلقات ہی عالمی اور علاقائی امن کی ضمانت ہیں مگر یہ حقیقت اپنی جگہ اظہرمن الشمس ہے کہ کشمیر کا دیرینہ تنازعہ حل ہوئے بغیر پاکستان اور بھارت کے مابین کبھی دوستانہ مراسم قائم نہیں ہو سکتے۔ ان دونوں ممالک کے مابین کشمیر ہی دشمنی کی بنیاد ہے اور اگر اس بنیاد کو برقرار رکھ کر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ امن اور دوستی کی خواہش کا اظہار کرینگے تو یہ خواہش خلوص نیت کے ساتھ تو کبھی پوری نہیں ہو سکتی۔ اس تناظر میں بھارتی وزیر خارجہ کا یہ کہنا کہ پاکستان ایسے معاملات پر مذاکرات نہ کرے جن سے کچھ حاصل نہ ہو پائے‘ پاکستان کو ملفوف انداز میں یہ باور کرانے کے مترادف ہے کہ وہ کشمیر کو بھول جائے اور اس تنازعہ کو کبھی مذاکرات کا حصہ نہ بنائے کیونکہ بھارت کشمیر کیلئے اپنے اٹوٹ انگ والے مو¿قف سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان بھارت مذاکرات کے ایجنڈے میں کشمیر شامل نہیں ہو گا تو پھر دونوں ممالک اور کس ایشو پر مذاکرات کی میز پر آمنے سامنے بیٹھ کر سر پھٹول کرینگے؟ جبکہ کشمیر کا مسئلہ حل ہونے کی صورت میں دونوں ممالک کے مابین جاری پانی کا تنازعہ بھی ازخود طے ہو جائیگا جس کے بعد علاقائی امن و استحکام کی بنیاد پر دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی منزل بھی حاصل ہو جائیگی۔ اگر بھارت علاقائی امن و استحکام کا خواہاں ہے تو اسے مسئلہ کشمیر کا حل ہی اپنی اولین ترجیح بنانا ہو گا اسی طرح عالمی امن کی خواہش مند قوتوں کو بھی پاکستان اور بھارت کے مابین جاری دیرینہ تنازعہ کشمیر کو حل کرانے کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں عالمی سطح پر پہلے ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی ضرورت پر زور دیا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ نے تو 64 برس پہلے ہی تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی درخواست پر اپنی قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کو استصواب کا حق دے کر اور کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرنے کی ہدایات جاری کرکے اس مسئلہ کا قابل عمل اور قابل قبول حل پیش کر دیا تھا اور اس قرارداد کے پس منظر میں ہی حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیری عوام پر بھارتی فوجوں کے ظلم و جبر کا نوٹس لیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت بھی اگر چین‘ یورپی یونین اور نارویجن پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے مابین جاری تنازعہ کشمیر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسکے حل کیلئے عالمی ثالثی سمیت مختلف تجاویز پیش کی جارہی ہیں تو کشمیر ایشو پر موجود یو این قراردادیں ہی اس کا جواز ہیں جبکہ کشمیری عوام اور پاکستان کیلئے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کی صورت میں ہی مسئلہ کشمیر کا کوئی حل قابل قبول ہو سکتا ہے۔ اگر بھارت سرے سے اس دیرینہ مسئلے پر بات ہی نہیں کرنا چاہتا تو پھر پاکستان بھارت مذاکرات کا جواز ہی ختم ہو جاتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین دوسرا ایسا کوئی گھمبیر تنازعہ یا سنگین مسئلہ موجود نہیں جس کے حل کیلئے ہر سطح پر پاکستان بھارت مذاکرات کا شدومد کے ساتھ اہتمام کیا جائے۔ باقی تنازعات تو محض قیدیوں کے تبادلے اور مچھیروں کی ایک دوسرے کی آبی حدود کی خلاف ورزیوں والے ہی رہ جاتے ہیں جن کے حل کیلئے پہلے ہی دونوں ممالک کے مجاز فورم موجود ہیں جبکہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کی فضا اور جنگ کا ماحول پیدا ہونے پر باہمی معمولی تنازعات بھی سنگین شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اس پس منظر میں یہ طے شدہ امر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے مابین امن و آشتی کی فضا مسئلہ کشمیر کا کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق یو این قراردادوں کی روشنی میں آبرومندانہ حل نکال کر ہی استوار کی جا سکتی ہے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ نے کشمیر پر پاکستان بھارت مذاکرات کے دروازے عملاً اور یکطرفہ طور پر بند کر دیئے ہیں۔ انہوں نے صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ بھارتی عوام میں پاکستان کیلئے اعتماد کی بحالی کی ذمہ داری بھی یکطرفہ طور پر پاکستان پر ہی ڈال دی ہے اور اس تناظر میں اسے ”اچھا بچہ“ بننے کی نصیحت کرتے ہوئے بھارت مخالف سرگرمیاں بند کرنے کیلئے سخت نوعیت کے اقدامات اٹھانے کی بھی تلقین کی ہے۔ یہی وہ بھارتی طرز عمل ہے جو پاکستان بھارت دوستی کیلئے پاکستان کی جانب سے بنایا گیا ماحول بگاڑ دیتا ہے جبکہ بھارت نے پاکستان کے ساتھ دوستی کو ہمیشہ ”دراندازی“ کیخلاف سخت کارروائی سے مشروط کیا ہے۔ 2008ءکے ممبئی حملوں کے بعد بھی بھارت نے ایسے ہی جارحانہ تقاضے کرتے ہوئے دہلی میں جاری پاکستان بھارت وزرائے خارجہ کی سطح کے مذاکرات سبوتاژ کئے تھے جس کے بعد اب تک بھارت کی ایک ہی رٹ پاکستان سے دراندازی کے خاتمہ کو یقینی بنانے کی صورت میں جاری ہے جبکہ بھارتی وزیراعظم منموہن نے اپنا دورہ¿ پاکستان بھی اسی تقاضے کے ساتھ مشروط کر رکھا ہے‘ کیااس طرزعمل سے پاکستان بھارت دوستی کی بیل کبھی منڈھے چڑھ سکتی ہے؟
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ اس بھارتی جارحانہ طرز عمل کے باوجود ہمارے سابقہ‘ موجودہ اور آنیوالے حکمران بھارت کیلئے یکطرفہ طور پر دیدہ و دل فرشِ راہ کئے بیٹھے نظر آتے ہیں‘ جبکہ ”امن کی آشا“ کے ماتحت ہمارے بعض دانشوروں اور تاجروں کے حلقے بھی پاکستان بھارت دشمنی کی بنیاد اور سرحدوں کی حقیقت کو نظرانداز کرکے بھارت کیلئے وارفتگی کا مظاہرہ کرتے نظر آتے ہیں۔ میاں نواز شریف تو یکطرفہ طور پر پاکستان کی سرزمین بھارت کیخلاف استعمال نہ ہونے دینے‘ بغیر دعوت کے بھارت کے دورے پر جانے‘ بھارتی وزیراعظم کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرنے اور پاکستان بھارت مذاکرات اکتوبر 1999ءسے شروع کرنے کے عزم کا اظہار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے سے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ انہیں بھارتی وزیر خارجہ کے گزشتہ روز کے بیان کے بعد تو بھارت کے ساتھ دوستی‘ تجارت اور یکطرفہ تعلقات کی سوچ سے رجوع کرلینا چاہیے اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اس دیرینہ روایتی دشمن کے خونیں پنجے سے آزاد کرانے کی ابھی سے منصوبہ بندی کرلینی چاہیے۔ جو دشمن ملک کی سلامتی کے ہی درپے ہے اسکی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانا ملک کی سالمیت کیخلاف اسکے عزائم کو خود ہی پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے کے مترادف ہے۔ میاں صاحب کو سوچ لینا چاہیے کہ آیا اپنی شہ رگ بھارت کے حوالے کرکے دشمن نوازی کی ایسی پالیسی کایہ وطن عزیز متحمل ہو سکتا ہے؟