میاں نواز شریف نے ابھی وزیراعظم پاکستان کا منصب بھی نہیں سنبھالا کہ ایک بار پھر امریکی ڈرون حملہ سرزمین پاکستان پر ہوچکا ہے ۔ حسب معمول حکومت پاکستان نے اس حملے پر اپنا شدید احتجاج ریکارڈ کروایا ۔یوں لگتا ہے کہ ڈرون حملوں کے خلاف ”احتجاج“ محض رسمی کارروائی کی شکل اختیار کرگیا ہے جو پاکستان کی خارجہ پالیسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔یہ خارجہ پالیسی انہی اصولوںپر مبنی ہے جو کہ مشرف دور میں طے پائے تھے اور جنکا تسلسل زرداری حکومت نے بھی بھرپور انداز میں جاری رکھا ہے۔6جون کو میاں نواز شریف اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم بن جائیں گے اور پھر چند دنوں کے بعد امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی پاکستان کے دورے پر آرہے ہیں ۔ یقینا ان مذاکرات میں جان کیری اپنے ڈپلومیٹک بیگ میں لائے گئے امریکی حکومت کے نئے گیم پلان کا روڈ میپ بھی حکومت پاکستان کو دیں گے۔ اس ایجنڈے میں ڈرون حملوں کا جاری رکھنا اور حکومت پاکستان کا حسب معمول کا رسمی احتجاج کرتے رہنا بھی قرار پائے گا۔ دوسرا یہ کہ امریکی فوجیوں کو پاکستان کے راستے محفوظ راستہ فراہم کرنا شامل ہوگا ۔اسکے علاوہ یقینی طورپر ایران کے ساتھ پاکستان کا گیس پائپ لائن کا معاملہ اور گوادر پورٹ پر چین کی موجودگی ان تمام حساس معاملات پر امریکی تحفظات کھل کر سامنے آجائیں گے ۔
چین وہ واحد ملک ہے جو کہ پاکستان کے ساتھ ہر آڑے وقت میں برابر ساتھ کھڑا رہا ہے چین کے ساتھ لازوال دوستی کی بنیاد بلاشبہ ذوالفقار علی بھٹو ہی نے رکھی تھی اور پھر اسے مختلف ادوار میں پروان چڑھایا گیا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کو مغرب تک سفارتی سطح پر رسائی دلوانے میں پاکستان کاتاریخی کردار رہا ہے۔ پاکستان ہی کی ڈپلومیسی نے چین کو مغرب کے قریب لاکھڑا کیا چین نے بھی ہر آزمائش کی گھڑی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا ہے گوادر پورٹ پر چین کی موجودگی نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر مغربی ممالک کو بھی ناگوار گزر رہی ہے۔ خاص طورپر بھارت اس معاملہ پر شرانگیز پروپیگنڈا کرکے پاکستان دشمنی کا عملی مظاہرہ کر رہا ہے ان تمام حالات کے ہوتے ہوئے نئی حکومت کو اپنی خارجہ پالیسی کے خدوخال مرتب کرتے وقت امریکہ، برطانیہ، چین، بھارت، ایران اور ترکی میں اپنے سفارتی مشنوں کی بھی ازسرنو تشکیل کرنا ہوگی ۔ان پاکستانی مشنز میں سیاسی اور سفارشی شخصیات کی بجائے پاکستان کی وزارت خارجہ کے منجھے ہوئے کیریئر کے ڈپلومیٹ کو پاکستان کی نمائندگی کیلئے تعینات کیا جاناچاہئے ۔ماضی کے تجربات کی روشنی میں دیکھا جائے تو سابقہ حکومت کے پورے دور میں امریکہ اور برطانیہ میں اپنے من پسند صحافیوں کو سفیر اور ہائی کمشنر تعینات کیا گیا جسکا نتیجہ اب سامنے ہے ۔امریکہ میں حسین حقانی نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی نمائندگی کی اور میمو گیٹ جیسے سکینڈل منظر عام پر آئے جس سے قومی سلامتی خطرے میں پڑ گئی اسی طرح برطانیہ میں واجد شمس الحسن صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان بن کر پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے اور آصف علی زرداری کے مالی امور کی نگرانی اور انکے ولی عہد بلاول بھٹو زرداری کی گرومنگ کا فریضہ بھی سرانجام دیتے رہے ۔ماضی کی ان سفارتی غلطیوں سے سبق سیکھناچاہئے اور اس مرتبہ ان ممالک میں متحرک پیشہ ور سفارت کاروں ہی کو سفارتی ذمہ داریاں سونپی جائیں جو کہ پاکستان کی حقیقی نمائندگی کے فرائض ادا کریں تاکہ کشمیر کے ایشو کو ایک بار پھر عالمی سطح پر اجاگر کرکے آزادی کشمیر کی جدوجہد کو کامیاب بنانے میں معاون ثابت ہوسکیں۔اہل اور متحرک سفارت کاروں کی اعلیٰ سفارت کاری ہی پاکستان کو اقوام عالم میں اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔ آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی کا عملی مظاہرہ ہوناچاہئے ۔خارجہ پالیسی کے اصولوں میں غیر ملکی طاقتوں کی مشاورت کی روش اب ختم ہونی چاہئے اور سرزمین پاکستان پر صرف اور صرف پاکستان ہی کے عوام کا ایجنڈا نافذ ہونا چاہئے۔ امریکہ،برطانیہ،ایران،سعودی عرب اپنی جگہ سفارتی لحاظ سے پاکستان کیلئے انتہائی اہم ممالک ہیں لیکن ان ممالک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں سیاسی اور مذہبی طورپر کسی طرح کی بھی مداخلت قابل قبول نہیں ہونی چاہئے ان ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بین الاقوامی قوانین کے تحت حد مقرر ہونی چاہئے پاکستان کے مذہبی اور سیاسی معاملات میںکسی بھی ملک کی مداخلت خفیہ اور ظاہری طورپربند ہونی چاہئے اس طرح کی مداخلت قومی سلامتی کے تقاضوں کی نفی ہے ۔پاکستان میں غیر ملکی سفارت کاروں کی سرگرمیوں کو بھی بین الاقوامی قوانین کے تابع بنا کر ان پر عمل درآمد کروایاجائے ۔نئی حکومت کے قیام کے فوری بعد ہنگامی بنیادوں پر شٹل ڈپلومیسی کا آغاز ہوناچاہئے اور خاص طورپر چین،ایران اور ترکی کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر سفارت کاری کا عمل شروع ہوناچاہئے پاکستان کی قومی سلامتی اب اس امر کا تقاضہ کر رہی ہے کہ خارجہ پالیسی ہر قیمت پر آزاد اور خود مختار ہو۔مختصر یہ کہ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی نئے سرے سے مرتب ہو اور اسکا مقصد پاکستان کے اعلیٰ مفادات کا حصول ہو ۔دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ بہتر تعلقات استوار ہوں ۔ایسی خارجہ پالیسی ہونی چاہئے کہ جو مثبت ہو خارجہ پالیسی کا یہ اصول بھی اپنی جگہ برقرار رہے کہ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہ ہو جائے بھارت کے ساتھ دوستی ناممکن ہوگی ۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کیلئے جامع حکمت عملی وضع ہونی چاہئے ۔ دوسری جانب افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ بھی خطے میں طاقت کا توازن بھارت کے پلڑے میں ڈال رہا ہے جو کہ امریکی حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں فوجی طورپر تبدیلیاں لا کر پاکستان کی وحدت کو مضبوط بنانے میں سفارت کاری کو موثر بنانا ہوگا۔ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں امریکہ اور برطانیہ خفیہ ڈپلومیسی کے ذریعے قطر میں سفارت کاروں کی سطح پر سرگرم عمل رہے ہیں۔ اب پاکستان کی خارجہ پالیسی کا محور افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے بڑا واضح ہوناچاہئے اور پاکستان کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھناچاہئے تاکہ پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور ختم ہوسکے۔