بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ

بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ

وطنِ عزیز پاکستان میں الیکشن ہو چکے، ان کے نتائج بھی سامنے آ چکے ہیں۔ میاں شہبازشریف نے تو بڑے بھائی کو انتخابی مہم کے دوران ہی وزیراعظم کہہ دیا تھااور وہ تقریباً وزیراعظم کے منصب پر ایک بار پھر پہنچ ہی چکے ہیں۔ میاں نوازشریف نے جس طرح سیاست کی، جن کے ساتھ رہے اور جن کی سیاست کو کبھی دل سے تسلیم نہ کیا اور جن کے بارے میں اکثر کہا کہ ان کے ذکر پر خون کھولنے لگتا ہے اس سب پر ہمیں اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں!!
ہم تو آج چھوٹے میاں صاحب جو ایک مرتبہ پھر وزیراعلیٰ پنجاب بنائے جانے والے ہیں ان پر کچھ کہنا اور لکھنا چاہ رہے ہیں کہ انہوں نے سیاست میں جس جذبے کا مظاہرہ کیا جیسی چومکھی لڑی ،جس طرح طعنے نہ صرف برداشت کئے بلکہ ان کے جواب بھی میاں شہبازشریف نے اس طرح دیئے کہ میاں نوازشریف کو انہیں ہتھ ہولا رکھنے کا مشورہ دینا پڑا.... شریف برادران ہماری سیاست میں آئے اور چھا گئے انداز شاید متکبرانہ ہو اس پر اس سلسلہ میں ہم احتیاط ہی برت رہے ہیں کہ ہم نے تو باتوں باتوں میں ان باتوں کا ذکر کرنا ہے جو ہمارے ہاں اکثر منظرِ عام پر نہیں آتیں کہ میاں نوازشریف جب وزیراعظم پاکستان ہوا کرتے تھے اور ان کا اس عہدہ پر چلے جانا برادری ازم اور فیورٹ ازم والوں کے لئے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا تھا۔ نتیجتاً تب کے بادشاہ گروں نے یہ کوششیں کرنا شروع کر دیں کہ ہو نہ ہو شریف برادران میں درڑایں ڈال دی جائیں اور اس کے لئے یادش بخیر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف سے بہت پہلے ہی کام شروع کر دیا گیا تھا۔ مجھے غلام اسحاق خان مرحوم کی وہ تقریریں، حرکتیں اور چالاکیاں یاد آرہی ہیں جن پر عمل کرنے کے لئے موصوف نے اپنا پورا زور لگایا اور یہ سازش بار بار کی کہ ہو نہ ہو دونوں بھائی سیاست میں ایک دوسرے کے حلیف نہ رہیں اور حریف بن جائیں۔ غلام اسحاق خان مرحوم نے اس سلسلہ میں جو کاوشیں کیں ان کا تو میاں نوازشریف کو خود ٹیلی ویژن سکرین پر آ کر بتانا پڑا تھا کہ کس طرح میاں شہبازشریف کو میاں نوازشریف کے مدِمقابل لانے کی کوشش کی گئی مگر اس باریک کام میں جو طاقت، جو لوگ شامل تھے ان سب کو ناکامی ہوئی۔ اس بارے میں جب بھی شریف برادران کے خلاف کوشش کی گئی تو دونوں بھائی میاں نوازشریف اور میاں شہبازشریف اپنے مرحوم والد کی قیادت میں ہمیشہ مردِ مجید جناب مجید نظامی کے ہاں رہنمائی حاصل کرنے کے لئے پہنچ گئے!! وجہ یہ تھی کہ کئی مرتبہ انہوں نے بھی مردِ مجید جناب مجید نظامی کو وزارت عظمٰی اور صدارت کی پیشکش کر کے اندازہ کر لیا تھا کہ ان کا وہ نشہ نہیں جسے ترشی اُتار دے بلکہ ریکارڈ گواہ ہے۔ ....سفارش کر دیں کہ انہیں وزارت یا اس قسم کا کوئی عہدہ نہ دیا جائے جن میں غلام حیدر وائیں شہید کی طرح کے کئی باوقار نامِ نامی اسمائے گرامی موجود ہیں اور وہ بھی لوگ ہیں جو جناب ڈاکٹر اجمل نیازی کے بقول وزیر شذیر بننے کو ہی اپنی زندگی کا منتہاءسمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں ان میں دنیا سے اٹھ جانے والوں کا ذکر نہ بھی کیا جائے تو راولپنڈی والے شیخ رشید بھی تو وزیراطلاعات بننے کی خواہش لے کر پہلی مرتبہ اس چوکھٹ پر آئے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن یاد آ رہے ہیں جو جناب مجید نظامی کے سفارشی رقعے کے ساتھ مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے پاس گئے اور پھر سیکرٹری جنرل پاکستان پیپلز پارٹی کے اہم عہدے کے بعد وزارت خزانہ پاکستان کے عہدہ تک پہنچ گئے تھے۔ یوم تکبیر کے حوالے سے بھی تھوڑا سا ذکر ہو جانا چاہیے کہ جب بھارت نے ایٹمی ھماکہ کیا تو جواباً میاں نوازشریف نے دھماکوں پر دھماکے کر دیئے کیوں نہ کرتے کہ انہیں مردِ مجید جناب مجید نظامی نے کہہ دیا تھا کہ ”میاں صاحب اگر آپ نے ایٹمی دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی۔“

ای پیپر دی نیشن