قارئین کی جانب سے پذیرائی کسی کالم نگار کے لئے سب سے بڑا اطمینان ہوتا ہے۔ اور کسی تحریر پر پذیرائی ایسی ہو کہ
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
تو حق بحقدار رسید والی بات بن جاتی ہے۔ میں دفتری مصروفیات کے باعث کالم کی طرف زیادہ توجہ نہیں دے پاتا۔ کبھی کبھار وقفہ طویل ہو جاتا ہے جس پر اپنے خیر خواہ قارئین کے ”خدا خیر کرے“ جیسے اظہار پر مبنی ٹیلی فونز، ایس ایم ایس اور مراسلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے بالخصوص بزرگ قارئین کی دعاﺅں کا سہارا ایسا ہے کہ اعتماد بندھائے رکھتا ہے۔ لاہور کے ایک بزرگ نے دو سال قبل اپنے محبت بھرے مراسلے کے ساتھ میرے جمع شدہ ڈیڑھ سو کے قریب کالموں کی فوٹو کاپی بھجوا کر مجھے خوشگوار حیرت میں مبتلا کر دیا۔ ان میں میرے کچھ کالم ایسے بھی تھے جو میرے ریکارڈ میں موجود نہیں تھے اس لئے وہ کالم ملنے پر مجھے جو خوشی اور طمانیت حاصل ہوئی اس کا اظہار لفظوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ ان بزرگ کے مراسلے کے ان الفاظ نے تو مجھے آبدیدہ کر دیا کہ آپ کے اب تک نوائے وقت میں شائع ہونے والے تمام کالم میرے پاس محفوظ ہیں جو اکثر میرے زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ ایک بہن چکوال کی تھیں جو میرے ہر شائع ہونے والے کالم پر مجھے بے لوث دعاﺅں سے نوازا کرتی تھیں۔ قارئین کے ساتھ اپنائیت والے جذبات کا رشتہ ایسا بندھا ہوا ہے کہ حالات کے تھپیڑوں میں کبھی تنہائی اور مایوسی کا احساس نہیں ہونے دیتا۔ اگر لکھنے والے اور اس کے قاری کے مابین ملکی اور عوامی مسائل، سماجی رشتوں اور معاشرتی اقدار کے حوالے سے ایک جیسی سوچ اور ایک جیسے جذبات والا تعلق جُڑ جائے تو میں اسی جذبے کو شرفِ انسانیت، توقیرِ انسانیت اور فلاح انسانیت سے تعبیر کرتا ہوں۔
چونکہ ہمارے ملک کی اکثریتی آبادی تقریباً ایک جیسے اقتصادی، سماجی اور انسانی مسائل سے دوچار ہے اس لئے جب انہیں کوئی ایسی تحریر پڑھنے کو ملتی ہے جو ان کی سوچ، خیالات اور ملکی حالات کے بارے میں ان کے تجسس سے ہم آہنگ ہو تو وہ تحریر ان کے لئے معتبر بن جاتی ہے۔ اگر مجھے اپنے قارئین کا ایسا اعتبار حاصل ہے تو مجھ سے بڑا خوش قسمت انسان اور کون ہو سکتا ہے۔ آج مجھے یہ احساس اپنے ایک ایسے ہی قاری کی جانب سے بذریعہ ڈاک موصول ہونے والے ایک پیکٹ کو کھولنے کے بعد زیادہ شدت سے ہوا۔ جبکہ سوائے ممنونیت کے الفاظ کے، میرے پاس اپنے اس محترم قاری کو دینے کے لئے اور کچھ نہیں ہے۔ میں حیرت میں گم ہوں کہ میرے اس محترم قاری نے بھی نوائے وقت میں شائع ہونے والے میرے کالم اپنے پاس محفوظ رکھے ہوئے ہیں جن میں سے پچاس کے قریب کالموں کی کاپیاں انہوں نے مجھے بطور ثبوت بھجوائی ہیں۔ ان میں بھی کچھ کالم ایسے ہیں جو میرے ریکارڈ میں ناپید ہو چکے تھے۔ اپنے مراسلہ میں انہوں نے میرے کالموں ”چک شہزاد“، ”مقدرات کی تقسیم“، ”بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے“، ”غربت کی لاج“ اور ”اب قدرت کا این آر او بھی آنے والا ہے“ کا بطور خاص تذکرہ کیا اور پھر یہ تبصرہ کہ ”آپ کے کالموں میں غریبوں کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ اپنے کمال کو پہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے“ میں تو ممنونیت کے جذبات کے ساتھ بندھ کے رہ گیا ہوں۔ لکھتے وقت معروف پنجابی شاعر منظور جھلا کا یہ قطعہ اکثر میرے پیش نظر رہتا ہے کہ
نہ میں شاعر نہ شاعر دے پَیر ورگا
ایویں، جھلیا طبع ازمائی دی اے
بس میں بھی طبع آزمانے کی مشق کرتا رہتا ہوں جو اتفاق سے اس معاشرے کے محروم طبقات کے جذبات کی ترجمان بن جاتی ہے۔ معاشرے کے ان محروم طبقات میں ریٹائرڈ لائف گذارنے والے بزرگ افراد بھی شامل ہیں جن کا بڑھاپا بذاتِ خود ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے مگر جب اپنی اولاد کی بے حسی و بے نیازی، امتداد زمانہ کی ٹھوکروں اور گذر اوقات کے وسائل کی کمی کی صورت میں نانِ جویں کے حصول میں دشواری جیسے مسائل بھی ان کی جانب لپکتے ہیں تو ان کا بڑھاپا مزید خراب ہو جاتا ہے۔ پنشن اور ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن پر تکیہ کرنے والے معاشرے کے ان محروم طبقات کی ہر بجٹ کے موقع پر آس بندھتی ہے کہ اس میں ان کے لئے بھی چاہے اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی سہی، کچھ اہتمام تو ہو جائے گا، اس لئے حکمرانوں کو اپنے بجٹ کی تیاری کے وقت ایسے محروم طبقات کو تھوڑا بہت ریلیف دینے کا ضرور اہتمام کرنا چاہئے۔ جس کے بدلے ان کی جانب سے موصول ہونے والی دعائیں ان کی عاقبت سنوار سکتی۔ ایسی مفت دعاﺅں کا موقع بھلا کون ہاتھ سے جانے دے گا۔ اس لئے آج میں عوامی مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے والے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کی توجہ خصوصی طور پر ای او بی آئی کے صرف 36 سو روپے ماہوار پر اپنی ضعیفی کی کٹھنائیوں میں جسم و جاں کا تعلق جوڑے رکھنے کی نحیف کوششوں میں مگن ان محروم طبقات کی حالتِ زار کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ میرے بزرگ و محترم قاری صفدرآباد شیخوپورہ کے رانا محمد شبیر نے بھی اپنے مراسلے میں مجھ سے یہی تقاضا کیا ہے۔ جن کے بقول ساڑھے تین لاکھ سے زائد پنشنرز محکمہ ای او بی آئی سے محض 36 سو روپے ماہوار بڑھاپا الاﺅنس وصول کر رہے ہیں جس میں اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے مراعات یافتہ طبقات میں سے کوئی ایک آدمی اپنی گذر اوقات کر کے تو دکھائے۔ عفریت بن کر ڈسنے والی مہنگائی کے اس دور میں کیا 36 سو روپے میں صرف دو وقت کا کھانا بھی دستیاب ہو سکتا ہے جبکہ بڑھاپے کے دوران تو ادویات کے سہارے کے بغیر جسم و جاں کا رشتہ برقرار ہی نہیں رہ پاتا۔ اس محروم طبقے کے زیادہ تر لوگ اپنے گھریلو حالات کے بھی ستائے ہوتے ہیں جن کی اولادیں انہیں اپنے لئے بوجھ سمجھ کر ان کے معاملات سے بے نیاز ہو جاتی ہیں سو ان میں سے کسی کو اپنے گھر سے باہر تنہائی کی زندگی گزارنی پڑے تو ای او بی آئی کی 36 سو روپے کی رقم کو بطور امام ضامن باندھ کر بھی وہ زندگیوں کی کٹھنائیوں کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ آپ بخوبی اندازہ لگائیں کہ ای او بی آئی کے پاس ملازمین اور مالکان کی کنٹری بیوشن کی شکل میں مارچ 2012ءکے اعداد و شمار کے مطابق 219 عشاریہ چھ ارب روپے موجود ہیں جن میں لمبے گھپلوں کی خبریں بھی اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں جبکہ ای او بی آئی نے اس رقم سے کئی منفعت بخش کاروبار بھی چمکا رکھے ہیں۔ بڑھاپا الاﺅنس کی شکل میں جمع ہونے والی اس خطیر رقم سے اگر منفعت بخش کاروبار کیا جا رہا ہے تو کیا اس منافع میں ای او بی آئی کی قلیل رقم پر گذارا کرنے والے معاشرے کے ان محروم طبقات کو حصہ دار نہیں بنایا جانا چاہئے۔ آخر ہر پبلک فنڈ سرکاری حکام کی عیاشی اور لوٹ مار کے لئے ہی کیوں مختص ہو جاتا ہے۔ بڑھاپا الاﺅنس پر گذارا کرنے والے کئی خوددار انسان تو اپنی حالتِ زار سے لوگوں کو آگاہ بھی نہیں کر پاتے۔ بس اندر ہی اندر گھٹ گھٹ کر مرنے کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ میرے محترم قاری نے بھی ای او بی آئی کے بڑھاپا الاﺅنس پر گذارا کرنے والے طبقات کی ایسی ہی صورت حال کی عکاسی کرتے ہوئے مجھے ان کی حالتِ زار سے اختیار و اقتدار والوں کو آگاہ کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ ان کے خیال میں اگر ای او بی آئی کے ماتحت بڑھاپا الاﺅنس کی رقم ماہوار پندرہ ہزار روپے مقرر ہو جائے تو ان طبقات کی باقی ماندہ چند روزہ زندگی کسی قدر آسودگی کے ساتھ گذر سکتی ہے۔ میاں نوازشریف اور میاں شہباز شریف عام آدمی اور پسے پسماندہ طبقات کی تقدیر بدلنے کا جذبہ لے کر اپنے اقتدار کی تیسری ٹرم پر فائز ہو رہے ہیں تو وہ تھوڑی سی توجہ ای او بی آئی سے بڑھاپا الاﺅنس لینے والوں پر بھی مبذول کر لیں۔ یہ راہ چلتے کمائی جانے والی نیکی ہے۔ ورنہ
ایسا نہ ہو کہ درد بنے دردِ لادوا
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
”ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو“
Jun 01, 2013