’’اس بات کو دوتہائی صدی بیت چکی۔ پاکستان کی بقاء کے سامنے جو ’’ سوالیہ نشان ‘‘ سیکولر نہرو نے تب کھڑا کیا تھا وہ آج بھی کھڑا ہے۔اور المیہ یہ ہے کہ ہمارے آج کے حکمران اور ہمارے آج کے قومی رہنما اسی ’’ سوالیہ نشان ‘‘ کے سائے میں تصادم نہیں ٗ تعاون کے نعرے بلند کررہے ہیں۔میں یہاں ایک بار پھر ابن خلدون کا حوالہ دیئے بغیر نہیں رہ سکتا۔’’ جو قومیں اپنے فطری دشمنوں اور اپنے فطری دوستوں کو پہچاننے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہیں وہ اپنے زوال اور اپنی تباہی کے اسباب خود پیدا کرنا شروع کردیتی ہیں۔‘‘
ابن خلدون کے بتائے ہوئے اس تاریخی سچ کا صحیح ادراک وہ لوگ ضرور رکھتے ہوں گے جنہوں نے 13دسمبر1971ء کو آکاش وانی پر نشر ہونے والی وہ تقریر سنی تھی جس میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا۔’’ بھارت واسیو ۔۔۔ آج کا دن آپ کے لئے ایک بہت بڑی خوشخبری کا دن ہے ۔ آج بھارت کی اِس ناری نے بھارت دیش کی ایک ہزار سالہ ہزیمتوں شکستوں اور رسوائیوں کا بدلہ لے لیا ہے۔‘‘
میں نے یہ پوری تقریر ریڈیو کے ساتھ کان لگا کر سنی تھی۔متذکرہ بالا الفاظ کی گونج میرے کانوں میں آج بھی موجود ہے۔ اندارا گاندھی سقوطِ ڈھاکہ کے سرکاری اعلان سے تین روز قبل نیو دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گرائونڈ میں ایک ’’ عظیم الشان جلسہء عام ‘‘ سے خطاب کررہی تھیں۔
بھارت کی اِس ناری کا زخم یہ نہیں تھا کہ اس کے باپ کی انتھک جدوجہد کے باوجود ’’ قیامِ پاکستان ‘‘ رک نہیں سکا تھا۔ بھارت کی اس ناری کا اصل زخم۔۔۔ اور زیادہ گہرا زخم یہ تھا کہ ایک ہزار سال قبل چندر گپت اشوک ٗ رام اور کرشن کا بھارت محمود غزنوی ٗ محمد غوری اور ان کے جانشینوں کے قبضے میں چلا گیا تھا۔جو بات میں یہاں کہنا چاہ رہا ہوں۔ اور پورا زور دے کر کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے سامنے مسئلہ یا چیلنج بھارت کے ساتھ دشمنی قائم رکھنے یا دوستی کا آغاز کرنے کا نہیں ہے۔ ہمارے سامنے مسئلہ ’’ ہندو ذہنیت ‘‘ کو سمجھنے کا ہے۔ یہ کہانی موہن داس کرم چند گاندھی ٗ پنڈت جواہر لعل نہرو یا سردار ولبھ بھائی پٹیل سے نہیں سومناتھ کے مندر اوراس کے بعد محمد غوری کے ہاتھوں پر تھوی راج کی شکستوں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں کہ بھارت اپنے میزائلوں کے نام پرتھوی رکھتا ہے اور ہم غوری۔ پرتھوی اورغوری دو ایسی علامتیں ہیں جن کے سائے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات فرار کا کوئی راستہ نہ تو کبھی تلاش کرپائیں گے اور نہ ہی اختیار کر سکیں گے۔
نہرو اور اندرا کو تو جدیدیت اور سیکولر کشادہ نظری کی علامتیں ہونا چاہئے تھا لیکن کیا وہ اپنے اندر پوشیدہ ’’ ہندو توا ‘‘ سے رشتہ توڑ پائے؟ یہ وہ سوال ہے جو ان لوگوں کو اپنے آپ سے ضرور کرناچاہئے جو بھارت کے نئے وزیراعظم نریندر مودی سے ’’ امیدِ بہار‘‘ رکھ کر تلاشِ امن کے لئے نکلے ہیں۔
اگر نریندر مودی کو سمجھنا ہے اور اس کے لئے وہ دھواں دار ٗ شعلے برساتے بیانات کافی نہیں جو انہوں نے حالیہ انتخابی مہم کے دوران دیئے تو میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے نئی راہیں تلاش کرنے کی کوششوں میں لگے صاحبانِ خرد ودانش کو مشورہ دوں گا کہ وہ خوشونت سنگھ کی تصنیفThe End of Indiaکا مطالعہ ضرور کریں۔ یہ کتاب 2003ء میں شائع ہوئی تھی۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے میں یہاں خوشونت سنگھ کے دیباچے سے کچھ اقتباسات پیش کررہا ہوں۔
’’ یہ بھارت کی تاریخ کے تاریک ترین ایام ہیں۔ باپو گاندھی کی آبائی ریاست گجرات میں وحشت اور بربریت کا جوکھیل 2002ء کے اوائل میں کھیلا گیا اور جس کے نتیجے میں نریندر مودی نے بہت بھاری اکثریت کے ساتھ انتخابات میں کامیابی حاصل کی ٗ اسے میں اپنے ملک کے لئے ایک شگونِ بد سمجھتا ہوں۔ ہندو انتہا پسندوں کا فسطائی ایجنڈا دورِ جدید میں اپنی کوئی نظیر نہیں رکھتا۔
بھارت جب تقسیم ہوا تو میرا خیال تھا کہ پھر ہمیں ایسی خون ریزی نہیں دیکھنی پڑے گی۔ لیکن شاید میں غلط تھا۔ نریندر مودی کے جلو اور عقب میں مجھے وحشت و بربریت کا ایک ایسا طوفان اٹھتا نظر آرہا ہے جو بھارت کی ایک اور تقسیم کا باعث بنے گا۔
بھارت کی تباہی پاکستان یا کسی اور ملک کے ہاتھوںنہیں ہوگی۔ ہم خود ہی اپنے گلے پر چھری پھیر دیں گے۔ نریندر مودی ایک فرد کا نام نہیں ایک سوچ کا نام ہے۔ اور یہ سوچ ہماری بہترین خواہشات کے باوجود بڑی تیزی کے ساتھ جڑیں پکڑ رہی ہے۔ انڈیا کو اکھنڈ بھارت بنانے کا خواب اور اکھنڈ بھارت کوہندو بھارت بنا ڈالنے کا جنون ٗ خود بھارت کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ بن کر ابھر رہا ہے۔ دیوانگی کے اس طوفان کو روکنے کی کوئی صورت پیدا نہ ہوئی اور کسی معجزے کا ظہور نہ ہوا تو میں مستقبل میں ایک عظیم تباہی دیکھ رہا ہوں۔‘‘
یہ الفاظ خوشونت سنگھ کے ہیں جو اَب اس دنیا میں موجود نہیں۔ وہ نریندر مودی کے ہاتھوں دہلی کی راجدھانی کی فتح نہیں دیکھ سکے۔
میری دعا ہے کہ بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے والے میاں نوازشریف کو جلد یہ احسا س ہوجائے کہ تاریخ کا مینڈیٹ کچھ اور ہے۔ انگاروں کے بیج سے پھولوں کی فصل نہیں اگائی جاسکتی۔ (ختم شد)