برصغیر کی تقسیم کے وقت انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں کو کمزور اور منتشر رکھنے کیلئے چال چلی اور بہت سے مسلم اکثریتی علاقے اور ریاستیں معاہدہ کے برخلاف ہندوستان میں شامل کر دی گئیں خصوصاً آسام‘ بہار‘ پنجاب کا ضلع گورداس پور‘ فیروز پور اور کشمیر سے ملحقہ علاقہ ہندوستان کو دیدیاگیا جہاں برخلاف ہندوستان میں شامل کر دی گئیں۔ خصوصاً آسام‘ بہار‘ پنجاب کا ضلع گورداس پور‘ فیروزپور اور کشمیر سے ملحقہ علاقہ ہندوستان کو دیدیا گیا جہاں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ جب غیور قبائلی پٹھانوں نے اپنے مسلمان بھائیوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف جہادکا آغاز کیا اور کشمیر کا 30 فیصد حصہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا تو بھارت اقوام متحدہ میں چلا گیا اور واویلا کیا کہ مسلمان کشمیر پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری جانب ہندوﺅں اور ڈوگرہ مہاراجہ نے مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑنا شروع کر دیئے۔
اقوام متحدہ کی UN کونسل نے اس تنازع کے پُرامن حل کیلئے 1957ءمیں قرارداد منظور کی کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا اختیار دیا جائے اور رائے شماری کے ذریعے کشمیریوں کی رائے لی جائے مگر بھارتی سورماﺅں نے مظلوم اور محکوم کشمیریوں کو جبراً غلام بنانے کیلئے وحشیانہ کارروائیوں کا آغاز کرتے ہوئے وادی کشمیر میں ظلم کی ایک نئی اور خوفناک داستان کا آغاز کر دیا۔گزشتہ 66 سالوں سے کشمیری اپنے اوپر ہونیوالے ظلم و ستم اور جبرکے خلاف تحریک چلا رہے ہیں اور حق خودارادیت کے حصول کیلئے قربانیاں دے رہے ہیں۔ اس جدوجہد میں کشمیریوںکو شدید زخمی کرکے معذور کیا گیا۔ ان کی اربوں روپے کی املاک جلا دی گئیں۔ 58 ہزار کشمیری خواتین کو بیوہ اور 4 لاکھ بچوں کو یتیم کیا گیا۔ ہزاروں عفت ماب کشمیری خواتین کی آبرزویزی کی گئی او رظلم کا ہر حرب استعمال کیا گیا‘ لیکن کشمیری آج بھی اس عزم کے ساتھ بھارتی تسلط کے خلاف نبردآزما ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے بھارتی نامزد وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف وفاداری میں شرکت کرنے پر پاکستان میں محب وطن حلقوں اور نظریہ پاکستان کے محافظوں میں تشویش کی پائی گئی بلکہ کشمیری عوام اس فیصلہ سے مایوس ہوئے ہیں کیونکہ وہ بھارت کا اصل چہرہ دیکھ چکے ہیں اور انہیں بھارت سے خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔ کروڑوں کشمیری مسلمانوں کے دل میں طرح طرح کے ورسوسے پیدا ہورہے ہیں اور ان کے ذہن میاں محمد نوازشریف کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔
جناب وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کو بھارتی حکمرانوں سے دوستی یا تعلقات بڑھاتے ہوئے ان کشمیریوںکے آنسوﺅں اور ان کی آنکھوں میں سوالیہ انداز کو سامنے رکھنا ہوگا۔ انہیں شہیدوں کی قربانیوں اور مظلوموں کی آہوں کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم کشمیریوں کی آزادی اور ان کی قربانیوں کی قیمت پر بھارت سے کوئی رشتہ استوار کر سکتے ہیں۔ انہیں یہ بات بھی ذہن میں ضرور رکھنا ہوگی کہ جس طرح انہیں اپنے امرتسر کے گاﺅں جاتی عمرہ سے پیار ہے اور انہوں نے رائے ونڈ میں اسی یاد میں اپنے ماڈل گاﺅں کا نام جاتی عمرہ رکھ کر بتلایا کہ اپنی جنم بھومی کسی طرح بھلائی نہیں جا سکتی تو وہ کشمیریوں کے جذبات کو بھی ضرور یاد رکھیں جن کے گھر پر بھارتی درندے 66 سالوں سے قابض ہیں اور کشمیریوں کے آنسو پہ سوال کرنے پر حق بجانب ہیں۔