انتخابات میں مُردہ ووٹرز کے ووٹ کاسٹ کرنے کی خبریں تو عام ہوا کرتی ہیں‘ حیرت نہیں کیونکہ کئی زندہ ووٹرز بھی تو مُردوں یعنی مُردہ ضمیر ووٹوں‘ لٹیروں‘ اصول و کردار کے مریل امیدواروں رہنماﺅں کے حق میں اپنا ووٹ مُردہ کر سکتے ہیں۔ تو مُردوںکو بھی تو حق ہے کہ اپنے مُردہ بھائیوں کو ووٹ دے سکیں۔
انتخابات میں بھاری مینڈیٹ حاصل کرنے کیلئے اور اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے سیاستدانوں کا ایسے اوچھے حربے اختیار کرنا سیاسی کلچر کا حصہ بنتا جا رہاہے۔ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی شرح خواندگی بڑھانے کا ہمیں ایسا شوق چرایا ہے کہ ایک خواندہ قوم کا جعلی مینڈیٹ بھی دیا جانے لگا ہے۔ خصوصاً پرائمری اور مڈل کے امتحانات لینے والے ادارہ پنجاب ایگزامینیشن کمیشن نے الیکشن سے بھی زیادہ دلچسپ نتائج مرتب کئے ہیں کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی کے ہاتھوں روتی قوم کا ہاسہ نکل گیا ہے۔ (ہنسی نکل گئی ہے) چلتے وقت ہی سہی‘ کوئی ادارہ ایسا ہے قوم کو خوشی دیتا ہے۔امتحانات میں شمولیت کرنیوالے بہت سے لائق اور محنتی بچوں کو شاید اس لئے فیل کر دیا گیا کہ جب ہم غیر حاضر طلباءکو بھی کامیاب قرار دیکر اپنی حُسن کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں‘ آپکو باولے کتے نے کاٹا تھاکہ امتحانات میں شریک ہوتے رہے۔
گزشتہ سال گریڈ VIII آٹھویں جماعت کے ایک طالبعلم امیدوار کا راقم عینی شاہد ہے کہ اسے ریاضی کے پیپر میں لیٹ آنے کی وجہ سے بیٹھنے نہ دیا گیا‘ لیکن وہ تمام مضامین کے ساتھ ریاضی میں بھی اچھے نمبروں سے پاس ہو گیا۔ اسی طرح ایک غیرحاضر بچی تمام مضامین میں اچھے نمبروں سے پاس ہو گئی۔
ایک غیرحاضر بچہ پھر اسی سکول کا کچھ مضامین میں نمبر لے گیا۔ اس سے بھی دلچسپ مثال یکے مُشتے ان افراد کے طورپر حاضر ہے کہ حالیہ آٹھویں کے امتحانات میں غیرحاضر تو درکنار امتحانات سے کئی ماہ پہلے اغوا ہوکر قتل ہو جانیوالا طالبعلم امیدوار جس کی خبریں بھی اخبارات میں شائع ہوئیں‘ کچھ مضامین میں پاس ہو گیا ہے۔ اتنے متنازعہ امتحانات کے نائج یعنی فیل پاس ہونیوالے طلباءکی روشنی میں حکومت نے سخت نوٹس لینے کا فیصلہ کیاہے۔ نوائے وقت میں شائع ایک خبرکے مطابق امتحانات 2013ءپنجم‘ ہشتم کے غیر تسلی بخش نتائج تیرہ ہزار اساتذہ کو سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان میں سے کچھ کی ترقیاں روکی جائیں گی۔ آخری وارننگ لیٹر جاری کئے جائینگے حتیٰ کہ کچھ کو تو جبری ریٹائرڈ کر دیا جائیگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی نیک نیتی اور جس تن دہی سے وہ کام تمام شعبہ جات میں کر رہے ہیں‘ وہ نہ صرف ترقی کے خواہاں ہیں بلکہ شب و روز محنت اور اعلیٰ کارکردگی سے اچھے نتائج بھی دکھا رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اعلیٰ سطح پر تو چند اچھے افسران انکی ٹیم میں شامل ہیں‘ لیکن مکمل ٹیم خصوصاً شعبہ تعلیم میں جیسے انہوں نے خصوصی ترجیح دے رکھی ہے‘ بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اب سزا کے اسی فیصلہ کو لے لیجئے اور امتحانات کے متناعہ نتائج کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیجئے کہ استاد جسے نظام تعلیم میں قلب کی حیثیت حاصل ہے‘ انکی انتظامی مشینری نے کس طرح ایک سازش کے تحت تعلیمی نظام کے دل کو دکھا رکھا ہے۔اول تو لائق اور قابل افراد ڈاکٹر‘ انجینئر اور افسر شاہی میں شمولیت کو تقدم دیتے ہیں اور جو قسمت کے مارے استاد کا پیشہ اپنا لیتے ہیں‘ خصوصاً سکول کی سطح پر انکی وہ مٹی پلید کی جاتی ہے کہ دوسرے انکے عبرتناک انجام سے سبق لیں اور اس شعبہ کا رخ نہ کریں۔ تعلیم و تدریس کے علاوہ ہر قسم کی ہنگامی ڈیوٹیاں فلڈ‘ مردم شماری‘ الیکشن ڈیوٹیز‘ ڈینگی مہم‘ پولیو کے خاتمہ کی مہم‘ امتحانات وغیرہ جیسی کٹھن ڈیوٹیاں دینا ان سے جہاں انہیں دربدر جانا ہوتا ہے وہیں تعلیمی و تدریسی عمل بھی متاثر ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کے اندر یعنی انہیں احسن طریقے سے تدریسی عمل کیلئے مطلوبہ سہولتیں اور وسائل مہیا نہیں ہوتے تو‘ 90‘ 90‘ 100‘100 طلباءکی کلاس کیلئے ٹیچر ماسوائے کنٹرول کرنے کا یہاں تک چیک نہیں کر سکتا جبکہ ماہرین تعلیم اور تعلیمی پالیسی کے مطابق ایک کلاس میں زیادہ سے زیادہ تیس طلباءہونے چاہئیں۔ ہیڈ ٹیچرز‘ ٹیچرس کو آجکل اتنی زیادہ میٹنگز بغیر کسی معاوضے کے دور دراز اور سکول ٹائم کے بعد اٹینڈ کرنا پڑتی ہیں کہ وہ نوکوی کے دن گن کر پورے کر رہے ہیں۔سکول عمارات اور وسائل کی پروا کئے بغیر باقاعدہ داخلہ مہم چلائی جا رہی ہے جو اساتذہ کو خوار کرنے کے علاوہ داخلہ لینے والے غریب طلباءکے مستقبل سے کھیلنے کا عظیم الشان منصوبہ ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ پرائیویٹ سکولز کا معیار بہتر کروا کر اور بیروزگار تعلیم یافتہ نوجوان کو روزگار دیکر ان بچوں کی تدریس کا سامان کیا جائے۔