حکومتی ماہرین معیشت وزیراعظم کی صحتیابی کے بعد ملک واپسی پر انہیں عوامی اشتعال کے آگے نہ جھونکیں

Jun 01, 2016

اداریہ

وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ دستاویز کی منظوری اور مختلف اشیاءکے نرخوں میں اضافے کا عندیہ

وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت ویڈیو لنک کے ذریعے ہونیوالے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز اگلے مالی سال کیلئے 45 کھرب روپے سے زائد کے بجٹ کی منظوری دی گئی‘ یہ بجٹ دستاویز جمعة المبارک 3 جون کو قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں پیش کی جائیگی۔ مجوزہ بجٹ میں 1675‘ ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے شامل کئے گئے ہیں جبکہ مجوزہ بجٹ میں ریونیو کا ہدف 3600‘ ارب روپے رکھا گیا ہے اور دفاعی اخراجات کیلئے 800‘ ارب روپے مختص کرنے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ مجوزہ بجٹ کے تحت 1200‘ ارب روپے کے نئے ریونیو اقدامات ہونگے جس کے باعث بجلی کی سبسڈی کم ہوگی جبکہ چائے‘ سگریٹ‘ موبائل فون‘ کاسمیٹکس اور مشروبات کے نرخوں میں اضافہ متوقع ہے۔ اسی طرح مجوزہ بجٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد منرل واٹر‘ گارمنٹس‘ خشک دودھ اور پان چھالیہ کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوگا جبکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصد اضافہ متوقع ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے ویڈیو لنک کے ذریعہ قومی اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انکے جسم و جان کی توانائیاں ملک کی مٹی کیلئے وقف ہیں اور انکے لہو کی ہر بوند اور سانس وطن کی مٹی کا قرض ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی پالیسیاں ملک میں امن لائی ہیں اور سرمایہ کاروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ انکے بقول وہ دہشت گردی‘ جہالت‘ پسماندگی اور اندھیروں سے پاک پاکستان دیکھ رہے ہیں۔
اگرچہ کچھ سیاسی حلقوں کی جانب سے وزیراعظم کی خرابی¿ صحت اور ملک میں عدم موجودگی کے تناظر میں وفاقی کابینہ اور قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس اور اس حوالے سے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کی آئینی حیثیت کے بارے میں ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی اور اس بنیاد پر قومی اسمبلی میں نیا قائد ایوان منتخب کرنے کا بھی تقاضا کیا گیا جبکہ پاکستان عوامی تحریک کی جانب سے اس سلسلہ میں لاہور ہائیکورٹ میں رٹ درخواست بھی دائر کی گئی ہے تاہم وزیراعظم نے اپنے عارضہ¿ قلب اور اوپن ہارٹ سرجری کے فیصلہ کے باوجود اس سیاسی دباﺅ کا بھی سامنا کیا اور آئینی و قانونی ماہرین سے اس معاملہ میں مشاورت کے بعد ویڈیولنک کے ذریعہ قومی اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت اور مجوزہ بجٹ سے متعلق وفاقی کابینہ کے فیصلہ کی توثیق کرکے اس ایشو پر بھی ابہام پیدا کرنیوالے حکومت مخالف عناصر کی ملک میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی۔ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کے دوران تین صوبوں کے وزراءاعلیٰ سید قائم علی شاہ‘ پرویز خٹک اور ثناءاللہ زہری نے وزیراعظم کی جلد صحت یابی کی دعائیں کرکے اور اجلاس کی کارروائی میں شریک ہو کر سیاسی رواداری اور بردباری کی فضا مستحکم بنائی جبکہ وزیراعظم نے اپنی صحت یابی کی دعاﺅں پر قومی اقتصادی کونسل اور وفاقی کابینہ کے ارکان کے علاوہ پوری قوم کا بھی شکریہ ادا کیا جو انکی جانب سے درحقیقت خیرسگالی کا پیغام تھا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بالعموم بجٹ اجلاس سے ایک روز پہلے بجٹ دستاویز کی توثیق کی جاتی ہے تاہم اس بار ہنگامی صورتحال کے پیش نظر کہ وزیراعظم کی اوپن ہارٹ سرجری بجٹ اجلاس سے تین روز قبل ہو رہی تھی‘ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بجٹ دستاویز کی منظوری بھی تین روز قبل لینا پڑی جس سے مجوزہ بجٹ کے تمام چیدہ چیدہ نکات‘ اسکے حجم‘ ریونیو اہداف‘ مختلف اشیاءکے نرخوں میں اضافہ اور مجوزہ نئے ٹیکسوں کے بارے میں بھی عوام کو پیشگی خبر ہو گئی ہے جبکہ اس سے اپوزیشن کو بھی مجوزہ بجٹ پر بھرپور احتجاج کی تیاری کا موقع مل گیا ہے۔ اسکے ساتھ ہی قوم کو اوگرا کی جانب سے پٹرول‘ ڈیزل اور مٹی کے تیل کے نرخوں میں اضافے کی بھجوائی گئی سفارش کا بھی جھٹکا لگ گیا چنانچہ قوم کو گزشتہ روز وزیراعظم نوازشریف کی کامیاب اوپن ہارٹ سرجری کی خوشی کے ساتھ ساتھ مجوزہ بجٹ کے ذریعے نازل ہونیوالی مہنگائی کا صدمہ بھی سہنا پڑا۔
گزشتہ ماہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے مختلف مصنوعات پر سیلز ٹیکس میں دوگنا تک اضافے کی تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں جو مجوزہ بجٹ کا حصہ بنائی گئی ہیں اس لئے آنیوالا بجٹ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے کوئی خوشی کی خبر نہیں لارہا۔ اپوزیشن کی جانب سے تو ابھی سے مجوزہ بجٹ کو حکومت کی ناکام اقتصادی پالیسیوں کا شاخسانہ قرار دیا جارہا ہے اس لئے حکومت کو‘ جو پہلے ہی پانامہ لیکس کے حوالے سے سخت دباﺅ کا شکار ہے‘ آنیوالے بجٹ کی بنیاد پر اپوزیشن کی متوقع جارحانہ تحریک کیلئے تیار رہنا چاہیے جبکہ بجٹ کے ذریعہ ملک کے بے وسیلہ عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ پڑیگا اور خطِ غربت کے نیچے زندگی بسر کرنیوالے عوام کی تعداد مزید بڑھے گی تو انہیں اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک میں چاشنی نظر آئیگی اور وہ تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق خود کو اس تحریک کا حصہ بنالیں گے۔ ابھی حتمی طور پر بجٹ کے مضمرات کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تاہم وفاقی کابینہ کی منظور کردہ بجٹ دستاویز سے تو مجوزہ بجٹ کے عوام دوست ہونے کا شائبہ تک نہیں مل رہا۔ حالانکہ مشکلات میں گھری حکومت کو اپنے اقتدار کے تین سال مکمل ہونے کے بعد عوام دوست بجٹ لانے کی زیادہ ضرورت تھی تاکہ اگلے انتخابات کی منزل قریب آتے آتے حکمران جماعت پر عوام کا اعتماد قائم ہوسکے تاہم محسوس یہی ہوتا ہے کہ اعدادوشمار کے ہیرپھیر میں یکتا حکومتی اقتصادی اور مالی مشیروں نے بجٹ کے ذریعے عوام کو ریلیف دینے کا حکومت کو کریڈٹ لینے کا کوئی موقع فراہم نہیں کیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اگرچہ اپنی ہر بجٹ تقریر میں ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانے اور ٹیکس سسٹم میں اصلاحات کے داعی ہوتے ہیں مگر فی الحقیقت ٹیکسوں کی وصولی کے نظام میں آج تک بہتری نہیں آسکی اس لئے ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھنے سے بھی زیادہ تر تنخواہ دار طبقات پر ہی بوجھ پڑتا ہے جن سے جبراً انکی تنخواہوں میں سے ٹیکس کی کٹوتی کی جاتی ہے جبکہ ٹیکس چوروں کے ہمیشہ وارے نیارے ہوتے ہیں جو خود بھی اور انکے عزیز و اقارب بھی منتخب ایوانوں میں حکومتی یا اپوزیشن بینچوں پر بیٹھتے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے حقوق و مفادات کیلئے تو بیک آواز ہوتے ہیں مگر عوام کے فائدے کا کبھی سوچتے ہیں نہ ان کیلئے منتخب ایوانوں میں آواز اٹھاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہر بجٹ کے بعد سال میں دو تین منی بجٹ لانا بھی حکومت نے اپنا وطیرہ بنالیا ہے جس کے ذریعہ قومی بجٹ کے علاوہ بھی نئے ٹیکسوں اور جاری ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی صورت میں قوم پر باربار ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے جس سے بالخصوص تنخواہ دار طبقات کیلئے انکی تنخواہوں میں کیا گیا دس پندرہ فیصد اضافہ بھی غارت ہوجاتا ہے اور وہ ٹیکسوں کے بوجھ کے ساتھ ساتھ یوٹیلٹی بلوں میں شتربے مہار اضافے اور روزمرہ استعمال کی اشیاءکی گرانی کے بوجھ تلے بھی دبتے چلے جاتے ہیں۔ حکمران تو اپنے طور پر عوام دوست بجٹ کے ہی داعی ہوتے ہیں مگر اعدادوشمار کے گورکھ دھندے میں انہیں ادراک ہی نہیں ہو پاتا کہ بجٹ کے ذریعہ عوام کو کس بے دردی کے ساتھ کند چھری سے ذبح کرنے کا اہتمام کردیا گیا ہے۔
یہی وہ اقدامات ہیں جو حکومتی پالیسیوں سے پہلے ہی زچ ہوئے عوام کو حکومتی اقدامات سے مزید متنفر کرتے ہیں۔ اس حوالے سے گزشتہ سال کا بجٹ اور اسکے بعد لائے گئے تین منی بجٹ اسکی بدترین مثال ہیں کہ انکے ذریعہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی سے ملنے والا معمولی ریلیف بھی عوام سے چھین لیا گیا۔ اب تو بجٹ کے ذریعہ مسلط کی جانیوالی مہنگائی کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے والا اوگرا کا کلہاڑا بھی عوام پر چلانے کی تیاری کی جارہی ہے اس لئے مرے کو مارے شاہ مدار کی تصویر بنے بیٹھے عوام کا اللہ ہی حافظ ہے۔ اگر حکومت کی پالیسی عوام کو ٹیکسوں اورمہنگائی کے بوجھ تلے دبائے رکھنے کی ہی ہے تو اس سے عوام کے سخت ردعمل کی صورت میں حکومت کو لگنے والے دھچکے کا مداوا شاید اسکے آخری بجٹ میں عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دے کر بھی نہیں ہو پائے گا۔ اس تناظر میں تو موجودہ بجٹ ہی حکومت کا اصل امتحان ہے اس لئے اب بھی وقت ہے کہ وہ بجٹ میں مجوزہ نئے اور ناروا ٹیکسوں کی پالیسی سے رجوع کرلے اور 3 جون کی بجٹ دستاویز کے ذریعے پژمردہ عوام کے چہروں پر خوشیوں کی رمق پیدا کرنے کا اہتمام کرے۔ حکومتی ماہرین معیشت کو وزیراعظم کی صحت یابی کے بعد ملک واپسی پر انہیں عوامی اشتعال کے آگے جھونکنے کا اہتمام تو نہیں کرنا چاہیے۔

مزیدخبریں