سستا اور فوری انصاف ریاست کی ذمہ داری

اسلامی جمہوریہء پاکستان کے دستور ۱۹۷۳ء کے آرٹیکل 37 شق ڈی کے مطابق ریاست بلاامتیاز رنگ و نسل ہر شہری کو سستا اور فوری انصاف فراہم کرنے کی پابند ہے۔ قانونی نظام کی پیچیدگیوں کی بنا پر عام شہری ماہر وکیل کی خدمات حاصل کئے بغیر اپنا مقدمہ خود لڑنے سے قاصر ہے، لامحالہ اسے اپنی پسند کے قانونی ماہر کی خدمات حاصل کرنے کیلئے وکیل کی بھاری فیس برداشت کرنا پڑتی ہے۔ فوجداری مقدمات تو کورٹ فیس سے مستثنیٰ ہیں مگر دیوانی عدالتوں میں پچیس ہزار روپے سے زائد مالیت کے مقدمات دائر کرنے کی صورت میں ہزاروں روپے مالیت کا کورٹ فیس بھی لگانا پڑتا ہے۔ مقدمہ فوجداری ہو یا دیوانی نوعیت کا اس کی بے جا طوالت بذات خود اخراجات میں اضافے کا موجب بنتی ہے۔جہاں تک فوری انصاف کا تعلق ہے آئین نے تو ریاست پر فوری انصاف کی ذمہ داری عائد کر دی مگر اس کے باوجود مقدمہ گلے پڑنے کی صورت میں جو بات سائل کیلئے سب سے زیادہ پریشانی کا باعث بنتی ہے وہ مقدمہ کی کارروائی اور فیصلے میں غیر ضروری تاخیر ہے۔ آج کے کالم میں ان عوامل کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں جو عام طور پر فوری انصاف کے راستے میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔ سب سے پہلے تو طلبی کے مرحلے پر تاخیر ہوتی ہے۔ فریق ثانی اور گواہوں کی طلبی کیلئے ایس ایم ایس، فون کال یا دیگر جدید ذرائع سے استفادہ حاصل کرنے کی بجائے آج بھی روایتی سمن نوٹس اور اشتہار اخبار کا طریقہ رائج ہے جبکہ گھروں، دفتروں اور سڑکوں کی صفائی پر مامور خاکروب تو کیا چوراہوں میں رات دن گردش کرتے گداگروں کے پاس بھی موبائل فون عام ہیں۔ بالا عدالتوں میں مصروفیت یا دیگر متفرق وجوہات کی بنا پر سیشن و سول عدالتوں میں وکلاء کی دستیابی کا مسئلہ رہتا ہے۔ شہادت کے مرحلے پر بے جا وقت یوں صرف ہوتا ہے کہ اول تو گواہ نہیں ہوتا اگر گواہ موجود ہو تو جرح کیلئے مخالف فریق کا کونسل دستیاب نہیں ہوتا۔ دوران مقدمہ یا دوران اپیل حکم سے قبل اضافی شہادت یا متفرق درخواستوں کا قانون مقدمہ کے فریقین کو مقدمہ میں تاخیر کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ عام طور پرکسی بھی عدالت کو کسی مقدمے کا ٹرائل مکمل کرنے کے مرحلے تک پہنچنے کیلئے کئی کئی متفرق درخواستیں نمٹانا پڑتی ہیں اور یہ عبوری عدالتی احکامات یا تو اپیل ایبل ہوتے ہیں یا ان کے خلاف نگرانی یا نظرثانی کی درخواست ہو سکتی ہے اور لوگ اپنا یہ حق استعمال بھی کرتے ہیں۔ قانون کے مطابق ماتحت عدالت کی کاروائی روکی بھی جا سکتی ہے اور کارروائی رکنے کے بعد فیصلے میں غیر معمولی تاخیر کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ٹرائل کورٹ مقدمہ کا فیصلہ کر دے تو اپیل میں کیس ریمانڈ بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات ایسا صرف فیصلہ دوبارہ لکھنے کیلئے ہوتا ہے۔ عدالت اپیل اگر کیس ماتحت عدالت کو ریمانڈ کرنے کی بجائے اپیل کا فیصلہ بھی کر دے تو ضابطے میں دی گئی گرائونڈز پر سیکنڈ اپیل کا قانون حرکت میں لایا جا سکتا ہے۔ حتیٰ کہ کسی نہ کسی شکل میں دادرسی کی امید سے لوگوں کو ہائیکورٹ کے بعد سپریم کورٹ تک بھی جانا پڑتا ہے۔ سزائے موت کے مقدمات کا ٹرائل سیشن عدالتیں کرتی ہیں اور ہائیکورٹ کی طرف سے توثیق کے بغیر سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا جو بالکل مناسب بات ہے مگر انتہائی ناقابل فہم بات یہ ہے کہ ہائیکورٹ بلکہ سپریم کورٹ سے توثیق کے باوجود ایک ایسے صدر کو رحم کی اپیل نہ صرف منظور کرنے کا اختیار حاصل ہو بلکہ رحم کی اپیل غیر معینہ مدت تک زیر التواء رکھنے کا استحقاق حاصل ہو جسے ملک کا دستور سیاسی پارٹی کی سربراہی یا رکنیت سے باز رکھنے سے قاصر ہو۔ یہی وہ اہم عوامل ہیں جو فوری انصاف میں رکاوٹ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان کا سد باب کیونکر ممکن ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ مقدمات کی کثرت کے پیش نظر ججوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافے سے فوری انصاف کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔ کسی نے ڈبل شفٹ عدالت کی بات کی مگر میری دانست میں سب سے پہلا کام جو فوری انصاف کو یقینی بنانے کیلئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ملک میں بلاتفریق نفاذ قانون کیلئے آئین کے آرٹیکل 25 پرسختی سے عملدرآمد یقینی بنایا جائے تاکہ قانون کی رٹ کا خوف نہ صرف محسوس کیا جائے بلکہ سب کو نظر بھی آئے۔ جب تک قانون بڑی مچھلیوں کے سامنے بے بس رہے گا قانون کی رٹ محسوس ہو سکتی ہے نہ کسی کو نظر آسکتی ہے۔ بڑے مگر مچھ قانون کے شکنجے میں آئیں تو خبر شہ سرخیوں کے ساتھ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں نشر ہوگی اور یوں قانون کی رٹ نظر بھی آئے گی۔ علاوہ ازیں حکومت اس ضمن میں متعدد اقدامات کرنے کی مجاز ہے۔ مثلاً قانون میں ضروری ترمیم کے ذریعے نگرانی کو اپیل میں ضم کر کے سنگل اپیل کا نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔ عدالت اپیل کی جانب سے ماتحت عدالت کو کیس ریمانڈ کرنے یا ماتحت عدالت کی کارروائی روکنے جیسی شقیں ختم کر کے عدالت اپیل کے فیصلے کو حتمی حیثیت دیتے ہوئے عملدرآمد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ متفرق درخواستوں کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے قانون میں ترمیم لائی جا سکتی ہے۔ مقدمے کی کارروائی میں تسلسل کیلئے وکیل کی حاضری کو یقینی بنانے کیلئے لیگل پریکٹیشنر اینڈ بار کونسل ایکٹ میں مناسب ترمیم کی جا سکتی ہے۔ جج کی رخصت کی صورت میں ڈیوٹی جج کو کارروائی جاری رکھنے کا پابند بنایا جا سکتا ہے۔ فریق ثانی یا گواہ کی طلبی کیلئے ماڈرن ٹیکنالوجی سے استفادہ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ رحم کی اپیل منظور کرنے کا صدارتی اختیار یکسر ختم کیا جا سکتا ہے یا کم از کم اسے صرف مملکت کے مفاد سے مشروط کر کے انتہائی محدود کیا جا سکتا ہے۔ سچی گواہی دینے اور سچ پر مبنی مقدمات لانے کی ترغیب دینے کیلئے لوگوں کو میڈیا کے ذریعے ایجوکیٹ کیا جا سکتا ہے۔ جھوٹی مقدمہ بازی کی حوصلہ شکنی کیلئے سخت گیر قانون متعارف کیا جا سکتا ہے۔ فوری انصاف کیلئے جج، وکیل اور گواہ کا تحفظ انتہائی ضروری ہے اور اس مقصد کیلئے بھی ٹھوس قانون سازی کی جا سکتی ہے۔ اب بھی اگر آئین کی شقوں پر عملدرآمد ترجیح بن جائے تو فوری اور سستے انصاف کا خواب حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن