پاکستان اور چین کی لازوال دوستی مضبوط معاشی تعلق کا روپ دھار چکی ہے اور ہر گزرتے لمحے دونوں ممالک کے روابط میں مضبوطی آ رہی ہے۔ پاکستان کو جس دور میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور بیرونی و اندرونی خطرات لاحق تھے چین وہ واحد ملک تھا جس نے دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے اس کڑے اور مشکل وقت میں پاکستان میں 55ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ یہ وہ دور تھا جب غیر ملکی سرمایہ کار تو ایک طرف، پاکستانی سرمایہ کار بھی دوسرے ملک میں سرمایہ لگانے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایسے موقع پر چین کی جانب سے خطیر سرمایہ کاری بلا شبہ دونوں ممالک کی مخلصانہ دوستی کی اعلیٰ مثال ہے۔ سی پیک کی بدولت خطے کی تقدیر بدل جائے گی اور خوشحالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔ پاکستان سمیت خطے کے مختلف ممالک کی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہو گا۔
چین میں منعقد ہونے والا "ون بیلٹ ون روڈ فورم"بلا شبہ دنیا کی تاریخ کا بہت بڑا سربراہ اجلاس تھا جس سے چین کو "نیو ورلڈ آرڈر"پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ اجلاس میں 21ممالک کے سربراہان نے باہمی اعتماد، سڑکوں اور ریلوے لنک کے ذریعے روابط کے ساتھ "نیو ورلڈ آرڈر" پر اتفاق کیا۔ بین الاقوامی فورم میں روس اور ترکی کے صدر کے علاوہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بھی موجود تھے۔ 27ممالک کے سربراہان کے علاوہ 130ممالک سے تقریباً 1500مندوبین جن میں آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور اقوام متحدہ کے سربراہان بھی شامل تھے، نے باہمی تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس دو روزہ فورم کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان اضافی معاہدوں پر دستخط ہوئے جن میں 500ملین ڈالر کے بھاشا ڈیم، گوادر ایئر پورٹ، حویلیاں ڈرائی پورٹ اور ریلوے ٹریک کے منصوبے بھی شامل تھے۔ ان سے پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں میں سرمایہ کاری 57ارب ڈالر ہو جائے گی۔
دنیا میں ترقی کی راہیں کھولنے کیلئے چین نے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت 124ارب ڈالر قریباً 30کھرب پاکستانی روپے دیئے جانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ آزاد تجارت اور جامعیت کے ساتھ امن کی راہ متعین کرنے والا منصوبہ ہے۔ بہت سے ممالک نے اس کی حمایت کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ تین براعظموں ایشیائ، یورپ اور افریقہ کو آپس میں ملائے گا۔ اس میگا پروجیکٹ سے نہ صرف غربت بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی مدد ملے گی۔ سی پیک ون بیلٹ ون روڈ کا سب سے اہم حصہ ہے۔ یہ منصوبہ تمام ممالک کیلئے کھلا ہے اور تمام ممالک اس سے مستفید ہوسکتے ہیں اور اس منصوبے کے باعث غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کو سیاسی رنگ نہیں دیا جانا چاہیئے۔
وزیراعظم کا حالیہ دورہ چین نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کے تمام ممالک کی شاندار ترقی کا ضامن ہوا ہے۔ بلا شبہ وزیراعظم نے اپنے ساتھ چاروں وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزراء کو اپنے وفد میں شامل کر کے اتحاد و یگانگت، قومی یکجہتی اور حب الوطنی کا ثبوت دیا ہے۔ سی پیک کو ئی معمولی نوعیت کا ترقیاتی منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ زندگی کے دیگر شعبوں کی ترقی بھی جڑی ہوئی ہے۔ درآمدات و برآمدات میں اضافے، صنعتی زونز کی تعمیر سے بے روزگاری کا عملاً خاتمہ ہو گا۔ افرادی قوت کام آئے گی۔ اجناس و اہم فصلوں اور سبزیوں کی منڈیوں تک رسائی ہو گی۔ جس سے ملک میں معاشی انقلاب آئے گا۔
بھارت کو پاکستان کی ترقی کسی طور پر برداشت نہیں لہٰذا اس کی ہر لمحے کوشش رہی کہ اس منصوبے کو سبوتاژ کیا جائے لیکن سفارتی سطح پر اس نے ہر جگہ منہ کی کھائی۔ ون بیلٹ ون روڈ فورم میں اس کا شمولیت نہ کرنا اس کا عملی ثبوت ہے۔ اپنے خطاب میں وزیراعظم نے بجا کہا کہ علاقائی روابط میں شامل ممالک کی کوئی جغرافیائی سرحد نہیں لہذا اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیئے۔ ایشیائ، یورپ اور افریقہ کے 69ممالک کے علاقائی روابط کے اس منصوبے سے چین خطے میں سپر پاور بن کر ابھرے گا اور اس منصوبے سے قریباً دنیا کی ایک چوتھائی آبادی فائدہ اٹھا سکے گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کا طویل المیعاد منصوبہ پاکستان میں زراعت کے شعبے میں انقلاب برپا کرے گا۔ جدید زرعی ٹیکنالوجی کا حصول آسان ہو گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زرعی پیداوار بالخصوص پھل اور سبزیاں مناسب ٹرانسپورٹ اور انفراسٹرکچر نہ ہونے کے باعث 50فیصد خراب ہو جاتی ہیں جس کو محفوظ رکھنے کیلئے فوڈ پروسیسنگ زونز اور کولڈ سٹوریج سہولتیں سی پیک کے طویل المیعاد منصوبوں میں میں شامل ہیں اور اس منصوبے میں سرمایہ کاری کیلئے چینی حکومت نے چائنہ ڈویلپمنٹ بینک کا انتخاب کیا ہے۔ سی پیک کے طویل المعیاد منصوبے کے تحت کراچی سے پشاور تک مانیٹرنگ نظام، ٹیلیویژن کے ذریعے چینی بغاوت کا فروغ اور چینی باشندوں کیلئے ویزا فری سہولتیں بھی میسر ہونگی۔ سی پیک کے سپیشل اکنامک زونز میں ٹیکسٹائل، گارمنٹس، سیمنٹ، بلڈنگ مٹیریل اور فرٹیلائزرز کی صنعتیں بھی شامل ہیں۔ اس نئے منصوبے کے تحت 3براعظموں کے علاقائی روابط مضبوط ہونگے اور معاشی انقلاب سے دنیا کی ایک چوتھائی آبادی بھی مستفید ہو گی۔