اس ہفتے کی سب سے اہم خبرپانامہ کیس پر قائم کر دہ جوائنٹ انوسٹیگیشن ٹیم کے سامنے وزیر اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز کا پیش ہو نا ہے ۔ جہاںانہیںاس ٹیم کی طرف سے 6گھنٹے تک ’’ تند و تیز‘‘ سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ اپنی نوعیت کا غیر معمولی واقعہ ہے کہ’’ حاکم وقت ‘‘کے صاحبزادے حسین نواز نے سپریم کورٹ کے حکم پر جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر عدلیہ کی بالا دستی کو تسلیم کیا ہے ۔ اس دوران ان سے بیرون ملک جائیدادوں ، اثاثوںاور کمپنیوں کے بارے میں پوچھ گچھ کی گئی جس کے انہوں نے بڑے تحمل سے جوابات دئیے ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم بھی جے آئی ٹی میں پیش ہوکر اپنی صفائی پیش کرسکتے ہیں۔اس وقت ایک جانب وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے کی طرف سے سپریم کورٹ کی قائم کردہ جے آئی ٹی سے تعاون کرنا ایک قابل تقلید مثال ہے دوسری جانب سپریم کورٹ میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان بھی مشکل صورت حال سے دوچار ہیں۔ سپریم کورٹ نے انہیں بنی گالہ کے ’’محل‘‘ کی’’منی ٹریل‘‘ اور پارٹی فنڈنگ کی تفصیلات جمع کرانے کی ہدایات جاری کر رکھی ہیں ۔ سپریم کورٹ ان سے استفسار کر رہی ہے کہ وہ ثابت کریں کہ انہیں جمائمہ نے ہی بنی گالہ میں اراضی کے لئے رقم بھجوائی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے واضح کیاہے کہ ملکی قانون میں ممنوعہ ذرائع سے فنڈز لینے کی اجازت نہیں ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات برملا کہی جا رہی ہے کہ اگر ’’نا اہلی ‘‘کی تلوار نواز شریف کے سر پر لٹک رہی ہے تو عمران خان بھی اس سے نہیں بچ سکیں گے۔ اب تو عمران خان بھی یہ بات برملاکہنے لگے ہیں کہ نواز شریف کی ’’نا اہلی‘‘کی صورت میں وہ اپنی ’’نا اہلی‘‘ کے لئے تیار ہیں خواجہ سعد رفیق نے عمران خان کو خبر دار کیا تھا جس ٹہنی پر وہ بیٹھے ہیں وہ اسی کو کاٹنے پر تلے ہیں اسی لئے سیاسی حلقوں میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہیں عمران خان سے کوئی بہت بڑی سیاسی غلطی تو نہیں ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں وہ نواز شریف کو سیاست سے’’ آئوٹ‘‘ کرتے کرتے خود ہی سیاست سے ’’آئوٹ‘‘ ہو تے جا رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتہ کے اواخر میں وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر اسحق ڈار نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں قومی بجٹ 2017-18ء پیش کر دیا ہے لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے دونوں ایوانوں میں بجٹ پر پارلیمانی روایات کے مطابق بحث ہوگی اور نہ ہی اپوزیشن بجٹ پر ’’ نظر ثانی ‘‘ کے لئے سنجیدہ ‘‘ دکھائی دیتی ہے ۔ سرد ست قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی بجٹ پر بحث کو براہ راست ٹیلی ویژن پر ٹیلی کاسٹ کرنے کا مطالبہ تسلیم نہ کئے جانے پر اپوزیشن پارلیمنٹ سے باہر بیٹھی ہے اور’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ لگا کر حکومت کے لئے پریشان کن صورت حال پیدا کر رہی ہے۔ آج نئے پارلیمانی سال کے آغاز پر صدر مملکت ممنون حسین نے بھی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنا ہے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’’بجٹ اجلاس‘‘ پر پائی جانے والی تلخی کے منفی اثرات صدر مملکت کے خطاب پر بھی پڑ سکتے ہیں ۔۔۔۔۔اگرچہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے آج صبح 10بجے پارلیمنٹ کے کمیٹی روم نمبر2میں اپوزیشن جماعتوں کا غیر معمولی اجلاس بلا لیا ہے جس میں صدر مملکت ممنون حسین کے خطاب کے موقع پر ’’ممکنہ احتجاج ‘‘ کے حوالے سے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔ ابھی تک اپوزیشن نے صدر مملکت کے خطاب کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا لیکن۔۔۔ قرائن بتاتے ہیں اپوزیشن موجودہ حکومت کا آخری پارلیمانی سال ’’بخیروعافیت‘‘ گزرنے نہیں دے گی اس لئے وہ پارلیمنٹ کے اندر ’’ہنگامہ آرائی، شور شرابہ، واک آئوٹ اور نعرے بازی‘‘ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ ممکن ہے پیپلز پارٹی حدودوقیود عبور نہ کرنا چاہتی ہو لیکن ’’حقیقی‘‘ اپوزیشن ثابت کرنے کے لئے پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں دوڑ لگی ہوئی ہے۔ خورشید شاہ جن پر حکومت سے ’’مک مکا‘‘ کرنے کا الزام عائد کیا جاتااپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو دھونے کے لئے بعض اوقات حکومت کے بارے میں سخت طرز عمل اختیار کر لیتے اب بجٹ اجلاس کو ہی دیکھ لیا جائے اپوزیشن نے دونوں ایوانوں میں اپنے وجود کا احساس دلا یا ہے ۔ تحریک انصاف نے دونوں ایوانوں میں ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگا کر حکومت کو زچ کرنے کی ہرممکن کوشش کی ۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں تحریک انصاف کے ارکان نے وزیر اعظم نواز شریف کی نشست کے سامنے کھڑے ہو کر نہ صرف ’’گو نواز گو ، اورجھوٹا جھوٹا ‘‘ کے اشتعال انگیز نعرے لگا ئے بلکہ ایجنڈے اور دیگر دستاویزات پھاڑ کر ایوان میں پھینک دیں۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بجٹ تقریر کے دوران حکومت پر بھاری دن تھا جو اس نے ’’تحمل اور بردباری‘‘ سے گزار دیا گیا وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر اسحقٰ ڈار اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کے سامنے بچھے جاتے ہیں ایوان کا ماحول پر امن رکھنے کے لئے انہوں نے وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی تقریر سے قبل قائد حزب اختلاف سید خورشید کی تقریر کی اجازت دلوا دی۔ جب کہ سپیکر اس غیر پارلیمانی روایت کو اپنانے کے حق میں نہیں تھے۔ کیونکہ سپیکر نے جوں ہی خورشید شاہ کی تقریر کی اجازت دی ، اپوزیشن جماعتوں کے دیگر رہنما بھی اپنی نشستوں پر کھڑے ہو گئے اور اس بات پر اصرار کرنے لگے انہیں بھی وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سے قبل بات کرنے کی اجازت دی جائے ۔ لیکن جب اجازت نہ ملی تو انہوں نے ہنگامہ کھڑا کر دیا ۔ سینیٹر اسحق ڈار اپوزیشن لیڈر پر بڑے مہربان دکھائی دیتے ہیں انہوں نے سید خورشید شاہ کو تقریر کی اجازت تو دلوادی لیکن وہ تحریک انصاف کو ہنگامہ آرائی کرنے سے نہ روک سکے ،اور وہ تحریک انصاف کے ارکان کے سامنے بے بسی کی تصویر بنے رہے۔ یہی طرز عمل سینیٹ میں اپوزیشن نے اختیار کئے رکھا دراصل دونوں ایوانوں میں نعرے بازی اور ہنگامہ آرائی اپوزیشن کے ایجنڈا میں شامل تھا۔ قومی اسمبلی میں ڈی چوک میں کسانوں پر تشدد اور ان کی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج تو ایک ’’بہانہ‘‘ تھا۔ اصل مقصد سینیٹر اسحقٰ ڈار کو دوران تقریر ٹوکنا تھا ہنگامہ آرائی کرکے بڑی بڑی خبر بنوانے کی کوشش کی گئی لیکن مسلم لیگی قیادت نے اپنے ارکان کو صبر تحمل کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کر رکھی تھی۔ جس کے باعث ایوان ’’میدان کارزار‘‘ نہ بنا۔ پچھلے پانچ چھ روز سے اپوزیشن حکومت کے ساتھ ’’واک آئوٹ‘‘ کا کھیل کھیلتی رہی ہے ۔تاحال حکومت نے بار بار نشاندہی پرکورم پورا کر کے اپوزیشن کیلئے ’’خفت‘‘ کا سماں پیدا کیا ہے۔ سپیکر ایاز صادق خورشید شاہ سے کہتے رہے ’’شاہ صاحب آپ 2002سے پارلیمنٹ کے رکن ہیں، پارلیمنٹ میں بجٹ تقریر سے پہلے اپوزیشن کو کبھی موقع نہیں دیا گیا ‘‘ لیکن اس کے باوجود سپیکر سردار ایاز صادق نے خورشید شاہ کو وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سے قبل بات کرنے اجازت دے کر ایک نئی روایت قائم کر دی ہے جو آنیوالے سپیکر کے لئے مشکلات پیدا کر دے گی ’’کپتان‘‘ نے خود تو قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کر رکھا اور جس پارلیمان میں وہ بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس میں اپنے ارکان کو ہنگامہ آرائی کے لئے بھیج دیتے ہیں اور ان کی ایوان میں ہنگامہ آرائی پر ’’ پر فارمنس ‘‘دیکھتے ہیں ۔تحریک انصاف کا تو ایجنڈاہی ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیواں گے‘‘ ہے اب پارلیمنٹ میں پیپلز پارٹی بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں ’’یرغمال‘‘ بنی ہوئی ہے ۔ اپوزیشن نے سینیٹ سے بھی واک آئوٹ کر حکومت کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ دونوں ایوانوں میں اپوزیشن کا یکساں ایجنڈا ہے۔ اسی لئے دوروز وقفے کے بعد جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو قائد حزب اختلاف خورشیدشاہ نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرنے کے لئے سرکاری ٹیلی ویژن پربراہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کے مطالبہ پر ایوان سے واک آئوٹ کر کے حکومتی ارکان کیلئے کورمکا مسئلہ پیدا کر دیا۔ سپیکر نے سید خورشید شاہ کو بتایا کہ موجودہ دور حکومت میں صرف ایک بار اپوزیشن لیڈر کی بجٹ تقریر براہ راست نشرکی گئی جبکہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں اپوزیشن لیڈر کی کوئی بھی تقریر ٹی وی پر نشر نہیں کی گئی۔ ایک مرحلہ پر اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے سینیٹر اسحقٰ ڈار کو اس حد تک زچ کرنے کی کوشش کی کہ انہیں اپنی بجٹ تقریر سے یہ شعر واپس لینے کیلئے کہا،
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
مگر وفاقی وزیرخزانہ اسحقٰ ڈار بھی ڈٹ گئے اور کہا کہ ’’گردن تو کٹ سکتی ہے مگر شعر واپس نہیں ہوسکتا‘‘۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر آپ حضورؐ کی آل سے ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہم حضورؐکے غلام ہیں، حضورؐ اپنی بات سے زیادہ غلاموں کا خیال رکھتے تھے‘‘۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تقریر براہ راست ٹیلی کاسٹ کرنے کی اجازت نہ دینے کے تنازعہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اپوزیشن کورم کی نشاندہی کر کے جہاں اجلاس ملتوی کرانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے وہاں اس نے پارلیمنٹ کے سامنے ’’عوامی پارلیمنٹ‘‘ لگا کر بھی حکومت کو زچ کرنے کا پورا فائدہ اٹھایا ہے۔
نااہلی کی زد میں کون؟ عمران کا برملا اعتراف
Jun 01, 2017