وزیراعظم کو اپنی پارٹی کے ”شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں“ کو خود نکیل ڈالنی چاہیے

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نہال ہاشمی کی جے آئی ٹی کے ارکان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں ‘ حکمران خاندان کیلئے نئی آزمائش

حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنماءسینیٹر نہال ہاشمی نے پانامہ کیس کی تفتیش کرنیوالی جے آئی ٹی کو واضح دھمکیاں دیتے ہوئے کہا ہے کہ آج تم حاضر سروس ہو‘ کل ریٹائر ہو جاﺅ گے‘ تم جس کا احتساب کررہے ہو‘ وہ وزیراعظم کا بیٹا ہے‘ مسلم لیگ (ن) کے کارکن تمہارا‘ تمہارے بچوں اور خاندان کا جینا حرام کر دینگے اور ان کیلئے پاکستان کی زمین تنگ کردینگے۔ انہوں نے گزشتہ روز کراچی میں ایک تقریب کے دوران جارحانہ انداز میں خطاب کرتے ہوئے جے آئی ٹی کے ارکان کو ٹارگٹ کیا اور دھمکی دی کہ حساب لینے والو‘ ہم تمہارا یوم حساب بنا دینگے۔ انہوں نے کہا کہ نوازشریف اور انکی فیملی باضمیر اور ایماندار ہے۔ آج ان کا حساب کرنیوالے کان کھول کر سن لیں کہ نوازشریف کے کارکن ان کا اور انکے بچوں کا جینا حرام کردینگے۔
پانامہ کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں قائم جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) سپریم کورٹ کی ہدایات ہی کی روشنی میں اس وقت وزیراعظم میاں نوازشریف کے صاحبزادے حسین نواز سے جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں قائم اپنے آفس میں تفتیش کررہی ہے اور یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ جے آئی ٹی کے دو ارکان پر اعتراضات اٹھانے کے باوجود حسین نواز شاملِ تفتیش ہو کر جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کررہے ہیں اور مسلسل دو روز تک جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہو کر طویل تفتیش کے دوران جے آئی ٹی کے استفسارات کے خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیتے اور متعلقہ دستاویزات فراہم کرتے رہے ہیں۔ اسی طرح خود وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے بھی عندیہ دیا جا چکا ہے کہ وہ جے آئی ٹی کے طلب کرنے پر اسکے روبرو پیش ہونے پر تیار ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران اور وفاقی و صوبائی وزراءبھی سپریم کورٹ کے فیصلہ کی تعمیل میں حکومت کی جانب سے جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کا عندیہ دے چکے ہیں۔ بے شک تفتیش کے مراحل کٹھن ہیں جس کے دوران حسین نواز کو کوفت کا سامنا کرنا پڑا ہوگا تاہم قانون کی عملداری اور عدالتی احکام کی تعمیل کیلئے وزیراعظم‘ انکے اہل خانہ اور حکومتی ارکان نے جے آئی ٹی کے ساتھ مکمل تعاون کا عندیہ دے کر اور پھر اس کا عملی مظاہرہ کرکے جہاں انصاف کا تقاضا پورا کیا‘ وہیں اپنے سیاسی قد کاٹھ میں بھی اضافہ کیا۔ باوجود اسکے کہ اپوزیشن جماعتوں پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے قائدین کی جانب سے وزیراعظم کے جے آئی ٹی میں پیش ہونے کے معاملہ پر وزیراعظم کے آفس کی تحقیر کے طعنے دیئے گئے اور انہیں محاذآرائی کی سیاست میں رگیدنے کی کوشش کی گئی‘ وزیراعظم نوازشریف اور انکے خاندان کے متعلقہ ارکان کی جانب سے جے آئی ٹی کے ساتھ تعاون ہی کا اعلان کیا جاتا رہا جبکہ تفتیش کیلئے حسین نواز کا جے آئی ٹی کے روبرو پیش ہونا اور خندہ پیشانی کے ساتھ جے آئی ٹی کے ہر سوال کا جواب دینا حکمران خاندان کی جانب سے قانون‘ آئین اور عدلیہ کے احترام کا ہی ثبوت ہے جس سے یقیناً ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کی بنیاد مستحکم ہوگی۔
جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کی متعین کردہ اپنی میعاد کے اندر اندر تفتیش مکمل کرکے اپنی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کرنی ہے جبکہ ہر دو ہفتے بعد سپریم کورٹ کو پراگرس رپورٹ دینا بھی جے آئی ٹی کی ذمہ داری ہے اور جے آئی ٹی کی اب تک کی کارروائی سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں مکمل غیرجانبداری کے ساتھ اور بلاخوف و خطر اپنی کارروائی کے مراحل طے کررہی ہے جس سے قوم کو اطمینان حاصل ہے کہ پانامہ کیس انصاف کے تقاضوں کے مطابق منطقی انجام تک پہنچے گا۔ اس سازگار ماحول میں سینیٹر نہال ہاشمی کا ایک تقریب میں تقریر کے دوران جوش میں آنا اور انتہائی عامیانہ انداز میں جے آئی ٹی کے ارکان‘ انکے بچوں اور خاندان کے دوسرے ارکان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دینا بادی النظر میں پانامہ کیس میں وزیراعظم اور انکے خاندان کے متعلقہ ارکان کیلئے اپنی صفائی کے دستیاب موقع کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش نظر آتا ہے جبکہ نہال ہاشمی نے ”کہنا بیٹی کو‘ سنانا بہو کو“ کے مصداق بالواسطہ طور پر سپریم کورٹ کیلئے دھمکی آمیز لہجہ اختیار کیا ہے جس کے احکام کی تعمیل میں جے آئی ٹی پانامہ کیس کی تفتیش کررہی ہے۔ نہال ہاشمی کے اس ہتک آمیز بیان کا ملبہ لازمی طور پر حکمران خاندان پر ہی پڑیگا جبکہ وزیراعظم اور ان کا خاندان بذات خود عدلیہ کے احترام کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھے ہوئے ہے۔ اسی تناظر میں وزیراعظم نوازشریف نے سینیٹر نہال ہاشمی کا یہ بیان سامنے آتے ہی اس کا نوٹس لیا اور نہال ہاشمی سے اسکی وضاحت طلب کرلی جبکہ اطلاعات ونشریات کی وزیر مملکت مریم اورنگزیب نے بھی نہال ہاشمی کے بیان پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے نہ صرف اس سے مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی کی لاتعلقی کا اعلان کیا بلکہ اس بیان کو انتہائی غیرمناسب اور افسوسناک بھی قرار دیا۔ انہوں نے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی باور کرادیا کہ حکومت آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔ انکے بقول وزیراعظم نوازشریف نے متذکرہ بیان کے بعد نہال ہاشمی کو وزیراعظم ہاﺅس میں طلب کرلیا ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ جے آئی ٹی اور عدلیہ کیخلاف ایسی جارحانہ اور توہین آمیز بیان بازی پر نہال ہاشمی کو وزیراعظم‘ انکے اہل خانہ یا حکومت کی ہرگز پشت پناہی حاصل نہیں بلکہ انہوں نے خود ہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہونے کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے نادانی میں یا کسی سازش کے تحت وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے ایک نئی مصیبت کھڑی کردی ہے جبکہ اپوزیشن کے ہاتھ بھی حکومت مخالف سیاست کا ایک نیا موقع آگیا ہے جس سے اپوزیشن لیڈران خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس سپریم کورٹ سید سجاد علی شاہ کیخلاف اختیار کی گئی حکومتی پالیسی اور سپریم کورٹ پر حملہ کے واقعہ کو یاد کراتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور حکومت کو عدلیہ کی تضحیک کا کلچر اپنانے کا موردالزام ٹھہرا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں تحریک انصاف کے عہدیداروں اسدعمر اور نعیم الحق نے نہال ہاشمی کے بیان پر فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس بیان کو وزیراعظم کی ملی بھگت قرار دیا اور کہا کہ نہال ہاشمی نے وزیراعظم کے ایماءپر ہی عدلیہ اور جے آئی ٹی کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی ہیں۔ نعیم الحق نے تو نہال ہاشمی کو عمرقید کی سزا دینے کا بھی تقاضا کیا جبکہ اسدعمر نے سوال اٹھایا ہے کہ اب دیکھتے ہیں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں نہال ہاشمی کو کب گرفتار کراتے ہیں۔ حکومت مخالف سیاست کے اس ہاتھ آئے موقع سے عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے بھی گزشتہ روز خوب فائدہ اٹھایا اور بیان داغ دیا کہ مسلم لیگ (ن) کے مالشیوں کو میاں نوازشریف کی حکومت گرتی نظر آئی ہے تو وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جے آئی ٹی کے ارکان کو دھمکیاں دے کر اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف کے ترجمان فواد چودھری نے نہال ہاشمی کے بیان کو بغاوت کے مترادف قرار دیا اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اس بیان کا سخت نوٹس لینے کا تقاضا کیا۔ پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے نہال ہاشمی کے متذکرہ بیان کی بنیاد پر حکومت مخالف تحریک کا لائحہ عمل طے کرنے کیلئے اپنی پارٹی کا اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔ اس طرح نہال ہاشمی نے بیٹھے بٹھائے چائے کے کپ میں طوفان کھڑا کرکے حکمران مسلم لیگ (ن) اور اسکی قیادت کو دفاعی پوزیشن پر لاکھڑا کیا ہے۔ اگر انہوں مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے ساتھ اپنی بے پایاں وفاداری کو جتانے کیلئے اپنے طور پر جے آئی ٹی کے ارکان کو قانون کی سخت گرفت میں آنے کی مستوجب دھمکیاں دی ہیں تو انہوں نے اپنی پارٹی‘ اسکی حکومت اور قیادت کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ ان کیلئے نئی آزمائش کا ضرور اہتمام کیا ہے جس پر حکمران خاندان کو ہی پریشانی اٹھانا پڑ سکتی ہے۔
اس صورتحال میں مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کی حیثیت سے میاں نوازشریف کی جانب سے نہال ہاشمی کیخلاف فوری اور سخت تادیبی کارروائی کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نوازشریف نے اس سلسلہ میں نہال ہاشمی کو وضاحت کیلئے طلب بھی کرلیا ہے تاہم محض طلب کرنے سے بات نہیں بنے گی کیونکہ یہ عدلیہ کی صریحاً توہین کا معاملہ ہے جس سے وزیراعظم کو خود بھی لاتعلقی کا اعلان کرنا ہوگا اور نہال ہاشمی کو پارٹی کی صفوں سے نکالنا ہوگا بصورت دیگر نہال ہاشمی کی یہ حرکت وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کیلئے ”آبیل مجھے مار“ والی حرکت بن جائیگی۔ وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو بہرصورت کسی اور کا گناہ اپنے گلے نہیں ڈالنا چاہیے اور نہال ہاشمی کیخلاف خود ہی سخت ایکشن لے کر اپنے مخالفین کو اچھل کود کا موقع فراہم نہیں کرنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...