گلگت بلتستان کشمیرکا حصہ ۔نادان دوست جومل گیا اکتفا کرلیں

گلگت بلتستان اورکشمیر سمیت چوراسی ہزار چارسو اکہتر مربع میل رقبہ عالمی سطح پرتسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی موجود ہیں یہاں سیاسی کھیل نہ کھیلا جائے اگراختیارات دینے تھے توآزادکشمیرکاصوبہ بنالیا جاتا تو بہتر ہوتا، زرداری صاحب نے جومخصوص مقاصد کیلئے محدود اختیارات دیے اس سے بھی برھ کر ن لیگ کی حکومت نے اختیارات دینے کی کوشش کی ہے احتجاج پھر بھی جاری ہے ، اس ضمن میں پاکستان کے نادان دوستوں سے گزارش ہے کہ وہ انہی اختیارات پر اکتفا کرلیں مسئلہ کشمیر کے مستقل حل کی مشترکہ جدوجہد کریں لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کرکے ملک کو نقصان نہ پہنچائیں ،علاقے میں شورش سے عالمی طاقتیں پاکستان کی سلامتی کی درپے ہوجائیں گی پاکستان کے زیرانتظام گلگت بلتستان کے وسیع علاقے کو پاکستان کے آئینی نظام میں ضم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔۔اکثر حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان کا یہ فیصلہ کشمیر پر بھارت کے دعوے کواعتباریت عطا کرے گا جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ اس سے بھارت کے لیے کشمیر کو وفاقی نظام میں ضم کرنے کی مشکلیں دور ہوجائیں گی۔اسی تناظر میں وزیرِاعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان آرڈر 2018 کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان کو بھی وہی اختیارات حاصل ہوں گے جو صوبوں کو حاصل ہیں۔ جو ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔چند روز قبل گلگت بلتستان حکومت نے 2009 سے نافذ جی بی ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر منسوخ کرکے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد گلگت بلتستان آرڈر 2018 کی منظوری دی تھی۔ادھر گلگت بلتستان اسمبلی میں جی بی آرڈینیس 2018 کے خلاف اپوزیشن ارکین نے وزیراعظم کی موجودگی میں بھر پور احتجاج کیا اور اسمبلی سے واک آوٹ کیا۔علاقے کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق اپنی جگہ ہیں گلگت بلتستان ایک طویل عرصے تک ریاستِ جموں کشمیر کے شمالی صوبے کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر قائم رہا اور تاریخی طور پر اس کے براہ راست جموں کشمیر کے لوگوں کے ساتھ روابط رہے۔ یہ رشتہ چاہے بخوشی ہو یا جبر کی بنیاد پر اس کو ہر وہ شخص تسلیم کرتا ہے جس کو تاریخ کا کچھ نہ کچھ ادراک ہو لیکن بعض لوگ اس تاریخی رشتے سے انکار کرتے ہیں اور وہ دلائل کی بنیاد پر نہیں بلکہ مذہبی جنونیت کی بنیاد پر حالانکہ ان کو اس بات کا علم نہیں کہ اگر گلگت بلتستان ماضی میں کشمیر کا حصہ نہیں رہا تو پھر یہ خطہ دنیا کے نقشے پر گزشتہ کئی دہائیوں سے متنازع حیثیت سے کیوں ہے؟ اس خطے کی متنازع حیثیت کی بنیادی وجہ کشمیر سے تاریخی رشتہ ہے، چاہے وہ بخوشی ہو یا جبری بنیادوں پر۔برصغیر کی تقسیم کے بعد جموں کشمیر کی درجنوں دیگر ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ چاہے پاکستان سے الحاق کریں یا بھارت سے۔ اس دوران بہت ساری ریاستوں نے پاکستان سے الحاق کیا اور بہت ساری ریاستوں نے بھارت کے ساتھ۔ جب کہ مہاراجہ کشمیر ہری سنگھ کی یہ خواہش تھی کہ وہ اس ریاست کو آزاد اور خودمختار طور پر دنیا کے نقشے پر قائم رکھے قبائلیوں کی یلغار کے بعدمہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے مدد کی اپیل کی۔ جس کو بھارت نے چند شرائط کی بنیاد پر قبول کرلیا اور مہاراجہ کی مدد کی ریاست کے شمالی صوبہ گلگت کے عوام نے کرنل حسن خان کے ساتھ مل کر علم بغاوت بلند کر دیا اور مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے مقرر کردہ گورنر گھنسارا سنگھ اور ان کے ساتھیوں کو اپنی مدد آپ کے تحت بھگایا اور اٹھائیس ہزار مربع میل خطہ گلگت بلتستان کوآزاد کرایا۔ یوں یکم نومبر 1947 کو ایک آزاد اور خودمختار ریاست وجود میں آئی۔ یہ آزادی بظاہر کشمیری سکھوں سے حاصل کی گئی تھی لیکن حقیقتا بھارت سے حاصل کی گئی یکم نومبر 1947 کی آزادی کے بعد گلگت بلتستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اور خودمختار ریاست کے طور پر سولہ دنوں تک قائم و دائم رہا۔ 16 نومبر کو پاکستان کی طرف سے مدد کے نام پرایک نائب تحصیلداراسرارعالم کی شکل میں اس خطے پرقابض ہوا اور بدقسمتی سے مقامی قیادت ان کی چاپلوسی میں آگئی۔ اس طرح ایک آزاد خود مختار ریاست و سابقہ صوبہ تحصیل میں تبدیل ہوگئی اور ایک نائب تحصیلدار اس خطے کے سیاہ و سفید کا مالک بن گیا۔ 28 اکتوبر 1947 کو جب کشمیر کے اندر قبائلی آئے تو بھارت نے یکم جنوری 1948 کو اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ جس کے بعد سابق ریاست جموں کشمیر جس کا رقبہ 84471 مربع میل پر مشتمل ہے، کو متنازع قرار دیا گیا اور تاحال یہ خطہ جس میں گلگت بلتستان کا 28 ہزار مربع میل اور کرگل لداخ کا طویل و عریض علاقہ بھی شامل ہے، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں منتازع ہے۔ اقوامِ متحدہ کے 13 اگست1948 کی قراردادوں کے مطابق پاکستان کو پابند بنایا گیا کہ وہ اپنے زیرانتظام کشمیر و گلگت بلتستان سے اپنی فوج و سویلین کا انخلا کرے گا اور اس کے بعد بھارت بھی اپنے زیر انتظام کرگل لداخ اور جموں کشمیر سے اپنی فوجوں اور سویلین کو واپس بلائے گا۔ بعد میں آزادانہ طور پر اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی ریفرنڈم کرایا جائے گا جس میں جموں کشمیر بشمول گلگت بلتستان کے عوام تین آپشنز پر ووٹ ڈالیں گے؛ پہلا پاکستان سے الحاق، دوسرا بھارت سے الحاق اور تیسرا آزاد و خودمختار ریاست۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان اوربھارت نے اس فیصلے پر عمل نہیں کیا نہ صرف اقوامِ متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کرایا گیا بلکہ بعد میں 5 جنوری1949 کو قرارداد سے تیسرے آپشن آزادی و خودمختاری کوختم کردیا گیا اورصرف دو آپشنزپراتفاق ہوا۔ 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کے نام سے انتظامی کنٹرول پاکستان کو دیدیا گیا معاہدہ دو فریقین کے بیچ طے پایا جن میں پہلا فریق پاکستان کی نمائندگی مشتاق گورمانی کررہے تھے دوسرے فریق کی نمائندگی سردار محمد ابراہیم خان اور چوہدری غلام عباس کر رہے تھے۔ سردار محمدابراہیم خان اس وقت کے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر جس کو آزاد کشمیر کہا جاتا ہے، کے وزیراعظم تھے،چوہدری غلام عباس جوآل جموں کشمیرمسلم کانفرنس کے صدر تھے اور 1948 کو مہاجر کی حیثیت سے انہوں نے کشمیر سے راولپنڈی ہجرت کی تھی۔جس پر مختلف حلقے اعتراضات کرتے ہیں اسی بنیاد پر پاکستان کا باضابطہ صوبہ بنانے پر زوردیا جاتا ہے یہاں ایک اہم حقیقت کو نظرانداز کیاجارہا ہے کہ اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان سمیت چوراسی ہزار چارسو اکہتر مربع میل علاقے کو کشمیر کا حصہ اور متنازعہ علاقہ سمجھا جاتاہے ایسے میں صوبہ بنانا دیوانے کا خواب یا حق خودارادیت ملنے کی صورت میں پاکستان کو ان علاقوں کے ووٹ حاصل کرنے سے محروم کرنا ہے پاکستان کے نادان دوست پتہ نہیں کس کے ایجنڈے پر گامزن ہیں حکومت پاکستان اسی وجہ سے باضابطہ صوبہ بنانے سے گریزاں ہے مگر فرقہ وارانہ تنظیمیں مصر ہیں کہ صوبہ بنادیا جائے جو کہ کسی بھی صورت میں ممکن نہیں مذہبی عناصر کو پاکستان کی سیاسی تنظیموں کی سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہیں ،ایک طبقہ اس بات پر مصر ہے کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں عالمی ادارے اسے کشمیر کا حصہ قراردیتے ہیں دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے

ای پیپر دی نیشن