نگران حکومت کا چناﺅ۔ سسٹم میں اصلاح کی ضرورت

Jun 01, 2018

دو روز قبل پنجاب کے ایک منجھے ہوئے اعلیٰ سطح کے آفیسر جو چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے تھے ان کو مجاز اتھارٹی نے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر چناﺅ کا اعلان کیا گیا تھا۔ ہر طرف سے اس تعیناتی کو سراہا گیا اور پھر اچانک ڈراپ سین ہوا اور اس کے بعد کی خبریں ایک افسوسناک بلکہ شرمناک داستان ہیں۔ پہلے سے ہی ہمارا معاشرہ ایک ناسور میں مبتلا ہے جس میں نیچے سے لے کر اوپر تک تعیناتیوں میں طرح طرح کی ہیرا پھیریاں ہوتی ہیں ان سے بعض پکڑی جاتی ہیں اور بعض بے خبری میں ہی اس بدنظمی سے فائدہ اٹھا کر ریاستی فنڈز کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں نیچے سے لیکر اوپر تک ہر محکمے میں فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی مافیا کی سرپرستی کے بغیر ایسی لاقانونیت یا دوسرے لفظوں میں سکہ شاہی پروان نہیں چڑھ سکتی۔ ایک صاحب حال ہی میں محکمہ خارجہ کی طرف سے امریکہ میں سفیر مقرر کئے گئے ہیں اور سوشل میڈیا کے شور مچانے پر اس معاملے کی تحقیقات ہوئیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے معاملات کا سختی سے نوٹس لیا جائے اور ذمہ دار مجاز اتھارٹی کو فوری عبرتناک سزا ہو۔ گزشتہ دنوں ایک ہوائی جہاز پی آئی اے سے چرا کر جرمنی میں نیلا م کر دیا گیا تھا۔ اور ایک طویل کارروائی سے یہ کیس پبلک کے نوٹس میں آیا تھا۔ درحقیقت حکومت کے اعلیٰ ترین عناصر ایسی کارروائیوں کی سرپرستی کرتے ہیں اور بالاخر مک مکاﺅ ہو جاتا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ نگران وزیراعظم کے چناﺅ میں کیا کیا ضروری اقدامات اٹھائے گئے تھے۔
نگران حکومت میں آفیسران کی تعیناتی کوئی جلد بازی کا کھیل نہیں ہے کیونکہ آئین کے تحت اس کی حدود و قیود پہلے سے ہی متعلقہ ادارے اپنی لسٹیں ترتیب دیتے ہوئے متعلقہ ایجنسیوں کے ذریعے زیر غور ناموں پر چاروں طرف سے ضروری کلیرنس کو یقینی بنانے کی دستور کے مطابق پہلے سے اپنے اپنے فرائض کی ادائیگی کی ذمہ دار ہیں۔ نقائص اس وقت پیش آتے ہیں جبکہ متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں غفلت کریں۔
در حقیقت گزشتہ ایک دو ہفتہ کے دوران میں خبروں کے ایک ہجوم بلانے پورے ملک کے عام شعبوں کو کسی نہ کسی گرفت میں لے رکھا ہے۔ ایک طرف ریاست حالت جنگ میں ہے دوسری طرف مختلف قسم کی مافیا ہر سطح پر لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ سیاسی طور پر مختلف پارٹیاں جوں جوں الیکشن قریب آ رہا ہے توں توں وہ اپنی ذات اور اپنی پارٹی کی کامیابی کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنے میں مصروف کار ہیں۔ پارلیمنٹ کے ممبران کی عید آئی ہوئی ہے اور ہارس ٹریڈنگ کی منڈیاں اپنے عروج پر ہیں۔ سیاسی طور پر مقدمات کی ایسی تھوک منڈیاں لگی ہیں کہ سابق وزیراعظم وزراءسرکاری عہدیدار اور وکلاءاور ایک لشکر اپنی خدمات متعلقہ اشخاص کو پیش کرنے میدان میں ہے۔ وکلاءکا ریٹ اپنی انتہائی ریکارڈ سطح پر پہنچ چکا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان مقدمات میں وفاقی اور صوبائی سطح پر ایک میلے کا سماں لگا ہے۔ یہ مقدمات جن میں سابق وزیراعظم صفحہ اول میں آج کل اپنے منطقی انجام کو پہنچنے والے ہیں ان میں تازہ ترین اضافہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کیس بھی ہے جس کی ابتدائی کارروائی جی ایچ کیو میں ہو رہی ہے اور سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف زور دے رہے ہیں کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف قومی انکوائری کمیشن بیٹھنا چاہئے۔ یہ کالم شائع ہونے تک نگران وزیر اعلیٰ اور نگران وزیراعظم صوبوں اور مرکز میں اپنا کام شروع کر چکے ہونگے۔ الیکشن کمیشن نے بعض اضلاع میں حلقہ بندیوں کا کام کالعدم قرار دیدیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بہاولپور رحیم یار خان چکوال ابٹگرام اور ہری پور میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ اگلے چند روز میں پُرانی حکومت کے جانے اور نئی نگران حکومتوں کے کاروبار ریاست سنبھالنے کا رن پڑا ہو گا۔ الیکشن کی آمد آمد ہے اور سیاسی پارٹیوں کو ان کے انتخابی نشان الاٹ ہو رہے ہیں۔ کہنے کو تو الیکشن اپنی مقررہ تاریخ 25جولائی 2018ءکو ضرور ہونگے۔ یعنی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے انتخابات ایک ہی دن میں سر انجام پائیں گے۔ کہنے کو تو الیکشن کمیشن نہایت احترام کے ساتھ یہ بات دہرا رہا ہے اور جتنے زور سے سیکرٹری الیکشن کمیشن انتخابی تاریخ کو بار بار دہراتے ہیں مجھے اتنا ہی ڈر لگتا ہے میرے دل کے کسی تاریک کونے میں زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ خوف آتا ہے کہ شاید الیکشن کمیشن کی خواہش پوری نہ ہو سکے۔اس موقع پر میں نگران وزیراعظم جسٹس ناصر الملک کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے ان کیلئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ آنے والے دنوں ہفتوں اور مہینوں میں انہیں اپنے مختلف ا ہد اف حل کرنے میں کامیابی عطا فرمائے۔ مجھے ذاتی طور پر 1993ءکے نگران وزیراعظم جناب معین قریشی کی نگران حکومت میں بحیثیت پریس سیکرٹری ٹو پرائم منسٹر انتخابات کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا تھا۔ وزیراعظم کو چھوٹے بڑے کام میں اپنے سٹاف سے مشورہ لینے کی ایک اچھی عادت تھی۔ چنانچہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ کے خیال میں اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد الیکشن کے روز پولنگ ختم ہونے تک مجھے بحیثیت وزیراعظم کیا کرنا چاہئے۔ میں نے عرض کیا کہ اسلام آباد اپنا ووٹ ڈالنے کے بعد آپ چاروں صوبوں کا دورہ کریں اور ہر جگہ چند پولنگ اسٹیشن ذاتی طور پر وزٹ کریں۔ سینٹرل کنٹرول آفس کے ساتھ پولنگ میں پروگریس کاجائزہ لیتے رہیں۔ جبکہ آپ تازہ ترین صورتحال سے شام کو اسلام آباد واپسی پر چیف الیکشن کمیشن کے ساتھ کنٹرول روم میں بیٹھ کر اپنے آپ کو حالات کے ساتھ UPTODATE رکھیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ مجھے یاد ہے کہ ان کے جہاز میں انہوں نے بھارت کے سابق وزیراعظم اندر گجرال کو بھی دورہ پر ساتھ دینے کی دعوت دی )جو ا س وقت پا کستا ن کے دورہ پر تھا ( چنانچہ چند وزراءاور بھارتی سابق وزیراعظم اور چند پریس کے نمائندوں کے ساتھ ہمارا ایک ایک دن کا سفر جس میں ہم نے اسلام آباد اور ملتان‘ حیدر آباد‘ کراچی اور کوئٹہ کا دورہ کیا جو بہت مفید اور کامیاب رہا۔

مزیدخبریں