چھوٹے کاشتکار جاپانیوں کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں

جاپان کی آبادی کا 12فیصد حصہ زراعت پیشہ ہے، فارموں کا اوسط رقبہ صرف ایک ہیکڑ ہے یعنی اڑھائی ایکڑ یا 20کنال فی کاشتکار جو کہ ہماری نسبت بہت کم ہے مگر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ان لوگوں نے پیداوار کے بلند ریکارڈ قائم کر رکھے ہیں۔ ہر فصل پر بے حد محنت کی جاتی ہے۔ جاپان میں نہ کوئلہ، نہ لوہا، نہ گیس، نہ پٹرولیم لیکن اقتصادی لحاظ سے دنیا کی سپر پاور ہے۔ وسائل سے محروم لیکن ٹیکنالوجی اور جذبہ محنت سے مالا مال جاپان میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ امداد باہمی کی انجمنوں کا نظام ہے۔ یہ سوسائٹیاں زرعی مداخل کی بہمر سانی اور پیداوار کی فروخت کا انتظام کرتی ہیں۔ یہ تمام کام اتنی خوش اسلوبی سے ہوتا ہے کہ حیرنی ہوتی ہے۔ کاشت کار کو کسی مرحلے پر کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ امداد باہمی والوں کی اپنی توسیع سروس (Extension Service)ہے۔جاپان میں کاشتکار تمام فصلوں کی کاشت پر توجہ نہیں دیتے بلکہ صرف ایک یا دو فصلیں اگانے میں مکمل مہرت حاصل کرتے ہیں۔ چھوٹے فارموں کی مشکلات سے بچنے کیلئے اکثر جگہ گروپ فارمنگ یعنی گروہی کاشت کاری کا طریقہ رائج ہے یہ بھی بہت دلچسپ طریقہ ہے۔ زمین مالکوں کی رہتی ہے اور اس کی پیداوار کے دانے دانے کا حقدار بھی مالک ہوتا ہے مگر کاشت گروہ کی صورت میں اکٹھی ہوتی ہے اور تقسیم کار کے اصول پر عمل ہوتا ہے، مثال کے طور پر اگر چھ کاشتکار مل کر چاول کاشت کرتے ہیں۔ ایک آدمی تمام چھ کاشتکاروں کی کل زمین کیلئے پنیری پیدا کرے گا۔ دوسرا کاشت کیلئے ساری زمین تیار کرے گا۔ تیسرا پنیری کھیتوں میں منتقل کرنے کا کام کرے گا۔ چوتھا آبپاشی کا ذمہ دار ہوگا۔ پانچواں بیماریوں سے بچاﺅ اور چھٹا دھان کی برداشت کرے گا۔ صرف ایک ذمہ داری لے کر باقی وقت کاشت کار کوئی اور کام کر سکتے ہیں۔ کسی فیکٹری میں کام کرنے چلے جاتے ہیں یا گھریلو دستکاریوں، ریشم سازی، مرغبانی ٹوکریاں بنانے یا اس قسم کے بے شمار کاموں میں حصہ لے سکتے ہیں۔ مثلاً پنیری کاشت کرنے والے کا کام شروع میں ہوتا ہے، پھر وہ فارغ ہوتا ہے، اس کے بعد وہ جہاں جی چاہے، کام کرے، کھیتوں میں کٹائی والے کاکام آخر میں ہوتا ہے۔ اس سے پہلے وہ جو چاہئے کام کرے اس طرح سب کام ہوتے رہتے ہیں۔ گروہی کاشت میں ہر کھیت پر بھرپور محنت کی جاتی ہے۔ پیداوار ملکیتی رقبہ کے تناسب سے تقسیم کر لی جاتی ہے۔ ابھرتے سورج کی سرزمین جاپان کے تجربات سے فائدہ اٹھانے میں آخر کیا حرج ہے؟ لیکن وہ ڈسپلن، محنت، جذبہ حب الوطنی کہاں سے لائیں۔ ہمارے ہاں تو کواپریٹو سوسائٹیز ناکام ہو چکی ہیں حالانکہ بنیادی لحاظ سے یہ عمدہ نظام ہے۔خشک کوہستانی علاقے۔ سرسبز و شاداب۔ مگر کیسے؟نیوزی لینڈ آج سے ساٹھ ستر سال پہلے چٹیل اور خشک پہاڑوں کا ملک تھا۔ مگر ہوائی جہاز سے گھاس کا بیج اور کھاد بکھیر کر وہاں کے لوگوں نے اسے سر سبز پہاڑوں اور وادیوں کی سرزمین بنا لیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہاں بھیڑ بکریاں اور مویشی اتنی کثرت سے پا لے جاتے ہیں کہ ملک ڈیری کی مصنوعات کا ایک بڑا مرکز بن گیا۔ ہمارے یہاں بھی سون کی وادی، اٹک کے پہاڑی علاقے، ڈیرہ اسماعیل خان، قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے بعض حصوں میں اگر ہوائی جہاز سے بیچ گرائے جائیں تو یہں دور دور تک درخت اور چراگاہیں نظر آنے لگیں۔ اس پر کچھ خرچ آئے گا بعد میں اس سے جو فائدہ ہوگا وہ اس خرچ کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہوگا۔
تھر اور چولستان تاحد نظر لہلہاتے کھیت:
بھارت کے 28صوبے ہیں رقبہ کے لحاظ سے رجستھان بھارت کے لک رقبے کے 10فیصد پر مشتمل ہے۔ پہلے اسے راجپوتانہ کہتے تھے اس کا بیشتر حصہ صحرائی ہے۔ یہ ہمارے چولستان اور تھر سے ملحق ہے۔ صوبہ راجستھان 32 اضلاع پر مشتمل ہے۔ رقبہ کے لحاظ سے چولستان سے کہیں زیادہ ہے۔ جے پور اس کا صدر مقام ہے۔ جے پور کو Pink Ctiyگلابی شہر کہا جاتا ہے۔ یہ اپنے محلات، میوزیم اور صد گاہ وغیرہ کیلئے مشہور ہے۔ بھارت نے نہروں، ٹیوب ویل، تالابوں، ڈرپ اریگیشن ، سپرنکل سسٹم کے ذریعے پانی پہنچا کر اس کو آباد کر لیا ہے۔ اس صوبہ کی عمومی فصلیں جوار، باجرا، چنے، تل، تارا میرا وغیرہ ہیںجنہیں کم پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بعض علاقوں میں گندم اور مکئی بھی بوئی جاتی ہے۔ یہاں مویشی بھی کثرت سے پالے جاتے ہیں، لہٰذا دودھ کی فراوانی ہے۔ اجمیر شریف کے نزدیک پھلیرہ پھولوں کی کاشتکاری کیلئے پورے ملک میں مشہور ہے۔ کیکر، پھلاہی، بیری، کریر، ون، جنڈا ایسے درخت آک، کوڑتما، بھکڑا جیسے ادویاتی پودے صحراﺅں میں عموماً خورد و پیدا ہوتے ہیں۔
ہم اپنے تھل کی آباد کاری کے تجربات اور بھارت میں راجستھان (راجپوتانہ) کے ریگزاروں اور سعودی عرب کے صحراﺅں میں سپر نکل اور ڈرپ اری گیشن کے پروگراموں سے استفادہ کرکے تھر اور چولستان کو کیوں وطن عزیز کا سر سبز و شاداب خطہ نہیں بناتے؟
ملک کی ایک ایک انچ زمین، ایک ایک فرد، وقت کے ایک ایک لمحے اور پانی کی ایک ایک بوند سے فائدہ اٹھائیں۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کیلئے صدیوں کی نہیں لمحوں کی ضرورت ہے لمحوں کے پرعزم فیصلے اور پرجوش عمل، عزم جوان ہو تو خواتین بھی ماﺅنٹ ایورسٹ فتح کر لیتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن